تکثیری معاشرہ اور ہمارامطلوبہ رویہ - ۱

اتوار, اپریل 28, 2013 عرفان وحید 0 Comments

نام کتاب: لِونگ ایز اے مسلم ان اے پلورل سوسائٹی
نام مصنف: ڈاکٹر فضل الرّحمٰن فریدی
پبلشر: اسلا مک فا ؤ نڈیشن ٹرسٹ ، چنئی ۱۹۹۸
ارو ترجمہ: تکثیری معاشرہ اور ہمارامطلوبہ رویہ
مترجم: عرفان وحید

زیرِ نظر طویل مقالہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی مرحوم کی انگریزی تحریر"لِونگ ایز اے مسلم ان اے پلورل سوسائٹی" کا ارو ترجمہ ہے جو راقم الحروف نے مولانا نذر محمد مدعو، سابق امیرِ حلقہ مہاراشٹر کی خواہش و ایما پر کیا تھا۔ ماہنامہ رفیقِ منزل میں یہ طویل مقالہ ۵ قسطوں میں شائع کیا جائے گا۔ اس کی پہلی قسط رفیق منزل کے شمارہ مئی ۲۰۱۳ میں شائع ہوئی۔ افادۂ قاری کے لیے اسے بلاگ پر پیش کیا جا رہا ہے۔

ارتقا پذیر تکثیری معاشرے

تیز رفتارتکثیریت پذیر معا شرے جدیدعا لمی منظر نا مے کا نہا یت اہم وا قعہ ہیں۔ البتہ تکثیریت جدید معا شرو ں کی منفرد خصوصیت نہیں ہے۔ ما ضی میں بھی تکثیری معا شرے غیر معرو ف نہیں تھے ۔ اگر چہ اس دور کی سماجی صور ت حا ل میں بلحا ظ کمیت امتیازی یا مجرد (exclusive) اور یک تمدنی (monocultural) معا شرے غالب تھے۔
ما ضی کے مجرد معا شرے بغیر کسی بیرو نی دبا ؤ کے اپنے ر ویو ں اور ادا رو ں کی تشکیل میں آز ا د و خودمختار تھے، تا ہم ان معاشروں میں بھی تہذیبی و نسلی گو نا گو نی یکسرمفقود نہ تھی۔ دنیا کے کئی گو شو ں میں تہذیبی و نسلی اقلیتیں ہمیشہ غا لب تہذیبو ں کی ہمسا ئیگی میں رہتی چلی آئی ہیں۔ اس کے علاوہ عا لمی تجا رت کے تعلقا ت ، ہر چند کہ انتہا ئی محدو د پیمانے پر ہی سہی، بوقلموں تہذیبو ں کو ایک دو سرے کے قریب لا نے کا سبب بنے ہیں ۔ عسکر ی مہما ت ، نقلِ مکا نی، غذا اور چا رے کی فرا ہمی میں نا ہمواری بھی لو گو ں کے سیا سی و تہذیبی سر حدو ں کو عبور کر نے کا با عث بنے۔
مذکورہ بالا اور دیگر متعدد رو زمرہ عو امل تہذیبی علیحد گی پسندی کی شدت کو کم کر نے اور مجرد معا شر ں میں تبدیلی لا نے میں معا ون و ممد ہوئے۔ بین تمدنی اشترا ک (intercultural borrowings) کی زیریں لہریں ہر دورمیں بہتی رہی ہیں جو اکثر یتی و اقلیتی ہردوتہذیبوں کے رویوں میں تبدیلی کا سبب بنیں۔ البتہ اقلیتیں عمو ما ً حا شیے پر رہیں اور سیا ست اور انتطا م حکو مت میں ان کا عمل دخل بہت کم رہا ۔

ما ضی کے تکثیری معا شرو ں میں مسلما ن 

مسلم معا شرو ں میں تکثیریت ہمیشہ ایک اہم وصف رہا ہے۔ مدینہ کے ابتدا ئی اسلا می معاشرہ مختلف النوع نسلی گروہوں کا مرکب تھا ،مثلا فارسی،حبشی اور دیگر اقوام ایک ساتھ رہتے تھے۔ مختلف مذاہب کے پیرو مثلا یہودی اور عیسائی بھی اس معاشرے کا حصہ تھے۔
بعد کے ادوار مثلاً بنوا میہ اور بنو عبا س کے دور اقتدار میں بھی مذہبی تنو ع مسلم نظام ِسیاسی کی اہم خصو صیت رہا ہے۔ خلافتِ عثما نیہ میں مشرقِ وسطی اور یو رپ میں تکثیریت خا ص طور پر ابھر کر آئی۔ بلقان ریاستیں، یو نا نی آرتھو ڈوکس، آرمینیا ئی گریگوری اور یہو دی ،مذہبی طور پر خو د مختار تھے۔
مسلما ن حکا م نے اقلیتو ں اور زیر نگیں عو ام کی تہذیبی آزا دی کے تحفظ پر خصو صی تو جہ دی اور انھیں اپنے اپنے رسو م و رواج اور مذہبی احکامات کی ادا ئیگی کے لیے مکمل آزا دی اور اختیا ر بخشا ۔ مسلما ن دو سرے معاشرو ں کی پسندید ہ اور مفید خصو صیا ت کو اخذ کر نے میں بھی ہمیشہ فیا ض واقع ہو ئے ہیں۔ مثلا فا رسی طریقہ جنگ غزوہ احزا ب میں ہی مستعا ر لیا جاچکاتھا۔ اس کے علا وہ انھوں نےیو نا نیو ں سے طب اور معا شی طور پرمستحکم قو مو ں سے کرنسی اخذ کی۔ با زنطینی تمدن میں را ئج پر دے کو انھو ں نے اپنے حجا ب کے لیے پسند کیا ۔ اس کے علا وہ بھی مسلمانوں نے دو سری اقوام سے مختلف علو م و فنو ن سیکھے ، البتہ مغرب جدید کے برعکس انھیں دیگر قومو ں کے احسان کے اعترا ف میں کو ئی با ک نہیں رہا ہے۔
اس طرح مرکب معا شرو ں میں بو دو با ش مسلم معاشرے کے مزا ج کے لیے کبھی اجنبی نہیں رہی ہے۔ مسلمانوں نے نہ صرف مختلف تہذیبو ں کے تئیں روا دا ری کا ثبوت پیش کیا بلکہ ان کی نسلی و مذہبی اقلیتو ں کے تحفظ اور بہبود کے لیے بھی مثبت اقدامات کیے۔
البتہ ان معا شرو ں میں عمو ما ً مسلما ن سیا سی طور پر اور حکو مت و معا شرے کے مجمو عی نظا م میں غا لب رہے ہیں۔ بعض اوقات چند نا گزیر حالات میں یہ کردا ر بدل بھی گئے یعنی جب مسلما ن معا شرے کے رحم و کرم پر اور مغلو ب تھے۔ مثلا ً ہندو ستا ن میں انگریزو ں کے دور اقتدا ر میں مسلمان تکثیری قو م کا اہم حصہ ہو تے ہو ئے بھی حالا ت کو بدلنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔ یوں ما ضی کے تکثیری معا شرے دو انتہاؤ ں پر رہے ہیں۔

جدید تکثیر یت کی نئی خصو صیات 

جدید تکثیری معا شرو ں کی تشکیل ایک با لکلّیہ مختلف نمو نے پر ہو ئی ہے۔ یہ معا شرے کم از کم دو جہتو ں سے مختلف ہیں: اولاً ان معا شرو ں میں سب کو، بلا تفریق مذہب یا ذا ت پات ، یکسا ں حقو ق حا صل ہیں۔ ان میں سے اکثر معا شرے سیا سی جمہو ری نظا م کے حا مل ہیں جس میں اقتدار کے لیے اشترا ک ِعا مہ کو یقینی بنا یا جا تا ہے۔ ثا نیاً ، جدید تکثیری معا شرے کی اساس عمو ماً غیر مذہبی اور سیکو لر اقدار پر قا ئم ہے۔ قطع نظر فلسفیا نہ اساسیا ت کے ، یہ بات و ثو ق سے کہی جا سکتی ہے کہ معاشی اور سماجی مقا صد اس معا شرے میں باہمی تعا مل کی نو عیت ،بوقلمو نی اور گہرائی کا تعین کر تے ہیں۔
جدید معا شرے کی اسی خصو صیت نے امت مسلمہ کو ایک بالکل نئی صور ت ِحا ل میں لا کھڑا کیا ہے۔ یہ صور تِ حا ل امت کے ما دی و روحا نی تشخص کی بقا کے لیے ایک انوکھا چیلنج ہے۔ جدید تکثیریت تقریباً غیر محسوس اندا ز میں ارتقاکے مراحل طے کر کے اب مستحکم اور دیر پا بن چکی ہے۔ اس صور تِ حا ل کی نو عیت و اہمیت کو سمجھنا امت کی کشمکش سلجھانے میں پہلا قدم ہے۔

ترقی کے عوا مل 

جدید تکثیری معا شرے کی تشکیل مختلف قو تو ں کے با ہمی اشترا ک سے ہو ئی ہے اور یہ سلسلہ ہنو ز جا ری ہے۔ان میں سب سے پہلا اور اہم عنصر ہے گذشتہ چند عشرو ں میں ہو نے وا لی سفر اور نقل و حمل کر نے کی ٹکنالوجی میں بے نظیر ترقی۔ دنیا کے دور دراز گو شو ں کا طویل اورجاں گسل سفر جو پہلے ہفتو ں اور مہینو ں کی صعوبتو ں سےطے ہو تا تھا، اب آوا ز سے تیز رفتار جیٹ طیا رو ں کے ذریعے محض چند گھنٹوں میں ممکن ہے۔ ما ضی کے مقابلے میں اب سفر کا فی منظم اور سہل ہو چکا ہے۔ غیر معلو م علا قو ں کے سفر میں پہلے جو بے یقینی اورخطرات درپیش ہوا کرتے تھے اب وہ ،احکا م و ضوا بط کی اِفرا ط کے با وجود ، انتہائی کم ہو چکے ہیں۔
نقل و حمل کی اسی آسا نی اور سرعت کا نتیجہ ہے کہ تجا رت پیشہ اور ملا زمت خوا ہ افرا د کے لیے ملکی سرحدو ں سے آگے بہتر موا قع کی تلا ش آسان ہو ئی ہے۔ زمین کی وسعتیں اب ایک گا ؤں کی طرح سمٹ چکی ہیں جس کے نتیجے میں غیرممکنات اب قا بلِ رسا ئی حقیقت بن چکے ہیں۔ مختلف مذاہب ، تہذیبو ں ، رویو ں کے حا مل افراد اور مختلف رنگ و نسل اور زبا ن کے مردوزن غریب مما لک سے سفر کر کے ترقی یا فتہ اور امیر مما لک میں بغرضِ ملا زمت اور بہتر معیار زندگی کی جستجو میں آرہے ہیں۔ عا لمی سرما ئے اور مزدو ر با زار کا انضما م اس نقل و حمل کی آسا نی وسرعت کی بدولت ہے۔
وہ افرا د جنھوں نے غیر مما لک کا سفرابتدأً وہا ں بس جا نے کے ارا دے سے نہیں کیا تھا اپنی جائےملا زمت کو اب مستقل سکونت کے طور پر اختیار کر چکے ہیں۔ دیگر افراد ،بشمول طلبا ،پُر کشش ملا زمت کے موا قع کی وجہ سے ترقی یا فتہ مما لک میں ہی بس چکے ہیں۔
نقل و حمل کے سریع اور منظم ذرا ئع کے ساتھ سا تھ ابلا غ و ترسیل کی ٹکنا لو جی نے بھی غیر معمولی ترقی کی ہے۔ طویل فاصلو ں پر مو جود عزیز و اقا رب سے مراسلت کی آسا نی نے نئی زمینو ں کو مستقل ٹھکا نہ بنا نے کے سلسلے میں رہی سہی رکاوٹ بھی ختم کر دی۔ ابلا غ کے سیٹلائٹ نیٹ ورک اور ٹکنا لو جی نے بھی حیر ت انگیز کا رنا مے انجا م دیے ہیں،جن کی بدو لت غیر مما لک میں متو طن افرا د کا ربط نہ صر ف اپنے وطنِ ما لو ف سے نہیں ٹو ٹتا بلکہ وہ انہیں ممالک میں اپنی پسند کے ‘تہذیبی جزیرے’ میں بھی حسب ِخوا ہش پہنچ جاتے ہیں۔
ٹیکنا لو جی کی ان غیر معمو لی ترقیا ت نے نقلِ مکا نی کے عمل کو تیز کیا ہے اور تکثیری معا شر وں کی تشکیل میں اہم کردا ر ادا کیا ہے۔ یوں ٹکنا لو جی اور معا شیا ت سما جی تکثیریت کو ابھا رنے اور مستحکم کر نے میں با ہم معا ون ہو ئی ہیں۔
ایک اور متعلقہ تبدیلی جووا قع ہو ئی وہ انیسویں صدی کی شدت پسند وطنیت کے کمزور ہو نے کی ہے۔ انیسویں صدی میں شدت پسند وطنیت کے تبا ہ کن اثرا ت کی بدولت چھوٹےچھو ٹے ثقا فتی گروہ اور فرقے معدو م ہو گئے تھے۔ نئی ٹکنا لو جی بڑے پیما نے پرہی اثر پذیر ہو سکتی تھی۔ اس سے قبل صنعتی و سما جی حلقو ں میں مسابقت کو قا ئم رکھنے کے لیے اور معا ندا نہ قو تو ں کو روکنے کے لیے چھو ٹے ثقافتی گرو ہو ں کو بہ جبر و ترغیب مجمو عی قومی مفا د کے ماتحت بنا یا گیا تھا۔ لیکن عا لمی معاشیات کے حا لیہ گلوبلائزیشن نے قو می استکبا رکے تصور اور اس کے متنوع گروہو ں کی یکجا رکھنے کی صلاحیت کو نقصا ن پہنچا یا ہے۔ اس کے بجا ئے گلو بلا ئزیشن نے چھو ٹے ثقا فتی گروہو ں کو اپنے تشخص کی بقا اور اظہا ر کے لیے بیدا ر کیا ہے۔ اسی اظہا ر کی مثا لیں ہیں یو گو سلا ویہ میں سلووک اور سرب جو سا بقہ سو ویت یو نین کے نسلی فرقے ہیں اور برطا نیہ میں آئرش و غیر ہ ۔
دوسرے مقا مات نے بھی ان نسلی فرقو ں کے با ہم تشدد پسند ٹکرا ؤ کے اثرا ت قبول کیے ہیں۔ مثلاً ہندو ستا ن میں میزو اور آسام قبا ئل کی اپنے حقو ق کی خاطر جدو جہد ،اور چینیوںمیں نسلی و مذہبی کشمکش کے وا قعا ت ۔
ما دی و سا ئنسی اعتبار سے خرا ب کا رکردگی، خصو صا ً انصا ف اور مسا وا ت کے محا ذ پر ناکامی اور ایک علیحدہ شدہ (dismembered) سما ج سے منقطع فرد کی روحا نی ضرو رتو ں کی عدم تکمیل بھی ان گروہو ں کے مذہبی بازاظہار کا اہم سبب بنی ہیں۔
مذہبی بیدا ری کا یہ مظہر محض ایشیا میں ہی نہیں دیکھا جا رہا ہے بلکہ یو رو پ، امریکہ اور چین میں بھی مذہبی جوش کی اٹھان اور فراوانی کا مشاہدہ کیا جا رہے۔ اس صور ت حا ل نے بیشتر مما لک کے مصنو عی وطنی تشخص کو مسما ر کردیا ہے۔ نتیجتاً ان معا شرو ں میں بھی تکثیریت اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔

انفرا دی وجود باہمی

تکثیریت سے مرا د محض گو نا گو ں مذاہب اور نسلو ں کے حا مل افرا دکی با ہمی قربت ہی نہیں بلکہ ان کا انفرا دی اور اجتما عی حیثیتوں سے با ہمی تعا مل بھی ہے۔
انفرا دی حیثیت سے ہندو ستا ن میں اس چیلنج کا تدا رک حقیقی وجود باہمی (defacto coexistence) کے مقتضیا ت کے عملی ردِعمل کی صورت میں کیا گیا ہے۔ ہندو اور مسلما ن یہاں ایک دو سرے کے پڑو سی، ہم کار اور ہم وطن ہیں اور مختلف شکلوں میں ایک دو سرے سے انفرادی طور پر تعا مل کر تے ہیں۔ ان کے پا س با ہمی احترا م و اکرا م کے کئی موا قع ہیں،جیسے کا روبا ری تعلقات، انسا نی تقا ضے ، سما جی اجتما عات وغیرہ ۔ضرو ری نہیں کہ انفرا دی سطح پر ان میں نا چا قی یکسرناپید ہو، تا ہم کبھی کبھا ر کی ناچاقیوں سے انفرا دی تعلقا ت کی گرم جو شی کبھی متاثر نہیں ہونے پاتی۔

اجتما عی وجود باہمی

البتہ اجتما عی وجود باہمی رویے کا چیلنج زیا دہ سنجیدہ ہے۔ مختلف گرو ہو ں کے درمیا ن ہم رنگ مذہبی ثقا فتی اور نسلی تشخص کی حیثیت سے وجودِ باہمی کے اس چیلنج نے تشویش نا ک صورت اختیا ر کر لی ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ مختلف گروہو ں کے درمیا ن عوامی روا بط تما م تکثیری معا شرو ں میں پر امن وجود ِباہمی کے لیے سنگین خطرہ ہو سکتے ہیں، اس کے اصول و ضوا بط وضع کرنے کی ویسی سنجیدہ کو شش کبھی نہیں کی گئی جس کی یہ متقا ضی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ تکثیری معا شرے عالمی طور پر متنو ع گرو ہو ں سے لا محا لہ تعا مل کے عمل سے اجتما عی سطح پر بھی گزرےہیں ۔ ہم ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانو ں کے درمیان اور دنیا کے مختلف گو شو ں میں یہودیوں ، مسلما نو ں اور عیسائیوں کے درمیا ن تعا مل کا مشاہد ہ کر تےرہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے بظا ہر بے ضرر سما جی عا دات و روایات مستعار لیتے ہیں ۔ معا شی سطح پر ان کا تعا مل خریدار و فرو خت کنندہ ، صنعت کا رو صارف ،آجر و مجیر کی حیثیت سے ہو تا رہتاہے۔ وہ مشترکہ زمین ، خا م ما ل کے مشترکہ وسا ئل اور مشترکہ با زا ر میں ہم کار و رفیق ہوتے ہیں۔ حتی کہ جب مخصو ص پیشے مخصوص گرو ہو ں کی پہچان بن جاتے ہیں تب بھی ان میں تعا ون و اشترا ک کی گنجائشیں کافی وسیع رہتی ہیں۔
برطا نیہ اور امریکہ جیسے مما لک میں بھی جہا ں مہا جرین کی تعدا د نسبتا ً کم ہے سیا سی محا ذ پر شمو لیت کا ایک قو ی رجحا ن مو جو د ہے ۔ البتہ یہ ایک نیا مظہر ہے اور سما جی ڈھا نچے پر اس کے اثرا ت کا جا ئزہ لینانسبتاً قبل ا ز وقت ہو گا۔
سیا سی عمل میں ہندو ستا ن میں سیا سی تعا مل اور تعا ون کا مظہر 1857؁ء کی تحریک آزا دی سے ابھرا ۔ تحریک خلا فت اس شمولیت کا ایک اہم سنگ میل تھا۔ اگر چہ یہ تعا ون ِبا ہمی تحریکِ آزا دی کے دو ران کچھ وقفو ں میں اور تقسیم ہند کے بعد چند عشروں کے لیے متاثر ہوا تھا ، تا ہم ہندو ستا ن کی دو بڑی قو مو ں ہندوؤں اور مسلما نوں کے درمیا ن اشترا کِ با ہمی کی یہ روایت ایک با ر پھر بتدریج جوا ن اور توا نا ہو چکی ہے۔ جمہو ری نظا م کی مسا ویا نہ عمل گستری میں نا کا می اور فرقہ وا را نہ فسادات کی فضا کے با وجو د سیا سی تعامل کا فی معقول رہا ہے۔
تا ہم کثیر تمدنی تعا مل ہمیشہ ہموا رنہیں رہا ہے۔ غا لب فر قو ں کے افراد ، اجنبیو ں (aliens) کی ہمسا ئیگی میں رہنا اکثر ناپسند کر تے ہیں اور خا مو شی سے مگر منظم اندا ز میں ان کے سا تھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں۔ اسی لیے نسل، اور بسااوقات، مذہب وقو م کی بنیا د پر قا ئم ہونے والی بستیو ں کا وجودایک معمول کی با ت ہے۔ حا لیہ عشرو ں میں عصبیت و عناد کی زیر یں لہر کو تمدنی تشخص کے تحفظ کی خوا ہش نے مزید تقویت دی ہے۔
تر قی یا فتہ مما لک مثلا ً امریکہ میں اس کشیدگی کا مشا ہدہ بخو بی کیا جا سکتا ہے جہا ں کالے اور گو رے امریکی ایک دو سرے کی ہمسا ئیگی میں نہیں رہتے ۔ ہما رے ملک میں بھی ایک طویل کثیر تمدنی اور کثیر مذہبی تا ریخ کے باوجو د شہری علا قو ں میں ہندو اور مسلما ن شا ذ ہی مشترکہ علاقوں میں رہتے ہیں ۔ سما جی و فرقہ وا را نہ عصبیتیں تعامل کے دو سرے میدانوں ،مثلاً نجی و سرکا ری دفا تر میں ملا زمتوں، عوا می رفا ہی کا مو ں ، مقننہ اور نفا ذ قا نو ن مشینری ،میں بھی نفو ذ کر جا تی ہیں۔
ہندو ستا ن میں ان عصبیتو ں کا تلخ تجربہ اکثر کیا گیا ہے کیو نکہ اکثر یہ پر تشدد فرقہ وا را نہ کشمکش کی شکل ختیا ر کر لیتی ہیں۔ البتہ یہ عصبیت مغربی معا شرو ں مثلا ً برطا نیہ ، امریکہ اور مشرق میں آسٹریلیا اور سری لنکا میں بھی بدرجہ اتم مو جو د ہے۔
دو سری طرف عا لمی معا شیا ت کے آفا ق وسیع ہو نے کے سا تھ سما جی اشترا ک کا میدا ن بھی وسیع ہوا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس صورتِ حال کے نتیجے میں دو متنا قض قوتیں سامنے آئی ہیں۔ عا لمی گلو بلا ئزیشن نے نو آبا دیا ت اور استعما ریت کی شکل اختیا ر کر لی ہے۔عا لمی معیشتوں کے انضمام نے کثیر قومی کمپنیو ں کے غلبہ کو فرو غ دیا ہے اور یہ ملکوں کے خود مختار حق ِفیصلہ کی را ہ میں بھی ایک خطرہ بن کر کھڑی ہو گئی ہیں۔ گلو بلا ئزیشن نے مختلف معا شرو ں کی اقداراور ثقافت پر کاری چوٹ لگا ئی ہے۔
اس صور ت حا ل کا مثبت پہلو یہ ہے کہ وجو د با ہمی ایک قاعدہ بن چکا ہے۔ مختلف مذ ا ہب اور تمدنوں کو مل جل کر رہنے کی تلقین ہے۔ نئے حا لا ت کے ساتھ سمجھوتے کو اب’ معقول’ (‘in’ thing) قرا د دیا گیا ہے۔ البتہ،منفی نتیجہ اس سب کا یہ ہے کہ اقلیتی مذ ا ہب اور تمدن سے ‘خطرے کےاندیشہ موہوم’نے انھیں نہایت درجہ حسا س ، چوکنا اور اجنبی تمدنو ں اورمعا شرو ں کے تئیں معاند بنا دیا ہے۔
ہندو ستا ن ایسے تکثیری معا شرے کی نما یا ں مثا ل ہے۔ امریکہ یا بر طا نیہ کے بر عکس ،ہندو ستا ن کی تکثیری خصو صیا ت حالیہ عشرو ں کی دین نہیں بلکہ یہ اس ملک کا ایسا تا ریخی وصف ہے جس پر اس کے عوا م نے ہمیشہ نا ز کیا ۔
ایسے مخلو ط معا شرے میں ایک مسلما ن کو کیسے رہنا چا ہیے ؟ اس معا شرے کی تعمیر نو اور ترقی کے لیے وہ کیا کردا ر ادا کرے؟ یہ سوا لات دنیا کے تقریبا ً تمام مما لک میں تکثیریت کے سیا ق و سبا ق میں انتہا ئی اہمیت کے حامل ہو چکے ہیں۔

یہ سوال کیو ں اہم ہیں

مسلما نو ں کو ان سوالا ت کا حل انتہا ئی سنجیدگی سے سو چنا چا ہیے کیو نکہ اس کے سا تھ انفرا دی اور اجتما عی حیثیت سے مسلم تشخص کا معا ملہ جڑا ہو اہے۔ اوراُمت مسلمہ کوئی معمولی سما جی گروہ نہیں ہے، جو کسی تا ریخی سانحہ کا شاخسا نہ ہو یا کسی علاقائی حدو د میں بو دوبا ش کے باعث وجو د میں آیا ہو ۔ یہ نہ توکسی قبا ئلی نسل کا نتیجہ ہے اور نہ کسی مخصو ص زبا ن ، رنگ یا نسل پر مبنی گروہ ہے۔ امت مسلمہ اپنے اصو لو ں ، اقدا ر ، معا شرتی مقا صد اور رو یو ں کے سبب دیگر اقوا م عالم سے ممتا ز ہے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اس کی قوت کا سر چشمہ ہیں۔ کتا ب و سنت مشترکہ طور پر بھی اور الگ الگ بھی امت کے نظر یہ حیا ت، اقدا ر اورترجیحا ت و تر غیبا ت متعین کرتے ہیں ۔ انھیں سے سما جی و اجتما عی رو یو ں کے عمو می اصول اخذ ہوتے ہیں اورانھیں سے سما جی و اجتما عی رو یو ں کی حدو د متعین ہو تی ہیں۔ عا م زندگی میں یہ آزادئ انسا ن کی بنیادی قدر پر نقب نہیں لگا تے۔
اس امت کا یہ وصف بھی اتنا ہی اہم ہے کہ اس کا نصب العین ہے اللہ کا پیغا م انسا نیت تک پہنچا نا تا کہ وہ حق کو پہچان کر اسلا م کی حقا نیت اور اس کی آفا قی اقدار کو جا ن لیں ۔ قرآن امت کے اس نصب العین کی تعریف درجِ ذیل آیت میں معیّن کرتا ہے:
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ
اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک "امت وسط" بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ [2:143]
ایک پُر زور بیا ن میں قرآن حکیم اس امت کی بعثت اور تخلیق کا مقصد اسی منصب کو قرا ر دیتا ہے:

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ [3:110]
سوال ہے کہ ایسی امت اپنے نصب العین سے عہدہ بر آ ہو تے ہو ئے ایک تکثیری معا شرے کے تقا ضو ں کو کس طر ح پور ا کر ے؟ (جاری ہے)

اس سلسلہ کی دوسری قسط کے لیے یہاں اور تیسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں