غزل۔ اے وقت ترے جبر کی توقیر کہاں تک

اتوار, دسمبر 29, 2013 عرفان وحید 0 Comments



ہو دیدٔہ خوش خواب کی تعبیر کہاں تک
اے وقت ترے جبر کی توقیر کہاں تک

0 comments:

تبصرہ کیجیے

میں اردو زباں ہوں - ڈاکٹر خالد مبشر کی تازہ نظم

جمعرات, دسمبر 12, 2013 عرفان وحید 0 Comments



'میں اردو زباں ہوں' ڈاکٹر خالد مبشر کی تازہ نظم ہے۔ موصوف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں  شعبۂ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔ زیرغورنظم میں انہوں نے اردو کی زبانی اس کے تابناک ماضی کی خوبصورت مرقع کشی کی ہے۔ نظم اپنے اختتامیے پر ایک پردرد احتجاج میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
شاعری کا  اصل لطف اسے بزبان شاعر سننے میں ہی ہے۔ کیوں نہیں، حاضر ہے خود شاعر کی ریکارڈ کردہ آواز میں یہ پر اثر نظم۔ 
غزل سننے کے لیے پلے بٹن پر کلک کریں۔

تبصرہ: مرید سخن۔ شعری مجموعہ

جمعہ, نومبر 01, 2013 عرفان وحید 0 Comments



ڈاکٹر طفیل آزاد (متخلص بہ صابرؔجہان آبادی) کے لیے کچھ لکھنا میرے لیے ایک  فریضے کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ میرے لیے شفیق مربی بھی ہیں اور بے تکلف دوست بھی۔ جب انہوں نے مجھے اپنے دوسرے شعری مجموعے 'مرید سخن' پر کچھ لکھنے کا حکم دیا تو میں نے بلا تأمل حامی بھرلی کہ ان کی محبتوں کے خیال سے انکار کا یارا نہ تھا۔ لیکن اب جب کہ میں لکھنے کے لیے بیٹھا ہوں ذہن میں ان کے فن اور شخصیت سے زیادہ اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی کا احساس غالب ہے اور ہر جنبش قلم پر ذہن میں یہی سوال گونجتا ہے: من کیستم؟ لیکن یہ فریضہ  تو بہر حال ادا کرنا ہے۔

صابرؔجہان آبادی- – ایک دردمند دل کا شاعر

شاعری نام ہے کائنات کے بسیط  مشاہدات  اور قلب و ذہن   کی واردات کو لطیف  پیرائے میں بیان کرنے کا۔ شاعر کو وہ دیدۂ بصیرت نگاہ عطا کیا گیا ہے جس کی بدولت شاعر ان چیزوں اور کیفیات کا مشاہدہ کرتا ہے جو عام انسانوں کی دسترس میں نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کی شاعری پرکبھی جزو پیمبری اورکبھی الہام ہونے کا گمان ہوتا ہے۔
صابرؔ جہان آبادی ایک دردمند دل رکھتے ہیں۔ شاعری ان کے لیے وسیلۂ اظہار نہیں بلکہ اپنے آپ سے گفتگو کرنے کا ذریعہ ہے۔ صابرؔ کی شاعری پڑھیے تو بادی النظر میں بڑے سادہ الفاظ اور سیدھے سادے خیالات نظر آتے ہیں لیکن دروں بینی سے جائزہ لیں تو ان میں گہرا فکری عمق اور پختگی کارفرما ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ سیدھے سادے شعر اپنے اندر معنی کی کیسی کیسی پرتیں سموئے ہوئے ہیں۔  شاعر اپنی داخلی کیفیات کو ابھارنے کے لیے بھاری بھرکم الفاظ، مبہم تشبیہات و استعارات اور گنجلک فلسفیانہ باتوں کا سہارا نہیں لیتا بلکہ عام فہم ،سادا ، سبک اور پیچ و خم سے عاری الفاظ سے ہی وہ معنی کی تہیں بٹھاتا چلا جاتا ہے۔
ان کے اشعار میں دھیمی دھیمی بہنے والی جوئے آب کی خفتہ سی روانی بھی ہے اور تیز رو ندی کا جو ش بھی۔ لہجہ کبھی نرم اور کبھی برہم ہوتا ہے۔ اس میں پچھلے زمانے کی ناسٹلجیائی اداسی بھی ہے اور مستقبل کی تابناک امیدیں بھی۔  شاعر  کااپنے سلسلہ تلمذ سے  والہانہ انسلاک اور لگاؤ بھی ملتا ہے اور اپنے ہم عصر  اور ہمکار احباب کا تذکرہ بھی۔ 
سچا فنکار اپنے آس پاس کے حالات سے باخبر رہتا ہے ۔ حسن عسکری کے بقول ہر ادب پارہ اپنے اندر حقیقت کا کوئی نہ کوئی تصور رکھتا ہے۔ صابر کا اشہب قلم بھی محض تخیل کی سرسبز اور رنگین وادیوں میں گلگشت نہیں کرتا بلکہ ان کے کان عصری ماحول کی چیخ پکار پر بھی لگے رہتے ہیں جو ان کے فن میں ڈھل کر سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔صابر صاحب کے بہت سے اشعار سہل ممتنع کا درجہ رکھتے ہیں۔ عام بول چال میں وہ اپنی بات کہہ گزرتے ہیں۔ آئیے ان کے چند اشعار دیکھتے چلیں:

شاخوں سے آج پتے بچھڑ بھی گئے تو کیا
ماضی کی پھر بھی یاد کا قائم شجر تو ہے

آرزو وصل کی کچھ اس طرح ہوئی رنجیدہ
جیسے دلہن کوئی میکے سے سسکتی جائے

اپنے اسلاف کے رستے سے بھٹک کر صابر
یہ نئی نسل پریشان ہوئی جاتی ہے

تجھ کو پانے کی دعا مانگی مگر لا حاصل
اب دعا کے لیے ہم ہاتھ اٹھاتے بھی نہیں

کھوئی تہذیب کہاں ہے صابرؔ
آؤ مل جل کے پتہ کرتے ہیں

اتنی مہلت بھی نہیں خود سے کہ ہم بات کریں
جسم کا بوجھ اٹھانے سے کہاں فرصت ہے

شہر کی رونقیں بڑھیں جب سے
ہو کا عالم ہے تب سے گاؤں میں

پوچھتا پھرتا ہوں اپنے ہی نشیمن کا پتہ
آج کس موڑ پہ یہ زیست مجھے لے آئی

قسمت کا لکھا کیا ہے، اور لوح و قلم کیا ہے؟ 
یہ کیا ہے سیاہی کا کاغذ پہ بکھر جانا

سعی لاکھ کی تجھ کو پانے کی میں نے 
مگر آج جانا کہ تو رو برو ہے

اس کی خفگی میں ہی شامل ہے وفا کی خوش بو
وہ اگر مجھ سے خفا ہے تو خفا رہنے دے

آپ پڑھتے ہیں کب کتابِ دل 
آپ سے بس یہی شکایت ہے

نسلِ آدم کی بقا اور ترقی کے لیے
بزمِ ہستی کو ابھی اور سنورنا ہوگا

مفلسی در پہ کھڑی رہتی ہے
یہ مرے گھر کا پتہ ہو جیسے

دعا کرتا ہوں سب کی خیر خواہی کی
دعاؤں میں اثر میری، خدا دے گا

زمانے سے آنسو چھپائے تو تھے
مگر آنکھ میں کچھ نمی رہ گئی

یہ کٹھن کام ہے بہت صابرؔ
اپنے عیبوں کو بھی ہنر کہنا

ان کے یہاں اتھاہ انسان دوستی پائی جاتی ہے۔ احساس زیاں کا کرب اور گزرے دور کی محرومیوں کے تذکرے سے وہ ہمارے قلب و ذہن پر دستک دیتے ہیں۔  ان اوصاف کے ساتھ کوئی تعجب کی بات نہ ہوگی کہ کل صابرؔ جہان آبادی ہمارے لیے ایک جانا مانا نام ہو لیکن جو وہ آج ہیں اس کی داد تو دیتے چلیں۔ 
ان کے شعروں میں عام گفتگو کا سا انداز پایا جاتا ہے اور ایک سوچتی  ہوئی غمگین لیکن سنجیدہ فضا قاری کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔ خلوص اور انسان دوستی ان کے اشعار کا خاصہ ہیں۔ زبان تصنع اور ریاکاری سے پاک ہے۔ ہاں کہیں کہیں   آورد کا احساس ہوتا ہے  اور ان کے ابتدائی دور کا کلام  شامل اشاعت ہونے سے بعض فنی اسقام بھی در آئے ہیں  لیکن یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کتاب کے مجموعی تاثر کو نقصان پہنچاتی ہو۔اس سب کے باوجود قاری کو ان کے اشعار موہ لیتے ہیں۔ یہ مجموعہ کتنا کامیاب ہے اس کا فیصلہ تو قارئین کو کرنا ہے۔ ہمیں بس اتنا کہنا ہےکہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں صابرؔ جہان آبادی کو بس اسی پر قناعت نہیں کرنی ہے بلکہ اظہار  کے نئے آفاق کو چھونا ہے لیکن یہ مشروط ہے عمیق مطالعہ و مشاہدہ اور کڑی ریاضت اور استقامت سے۔

ان منکسرانہ معروضات کے ساتھ میں مرید سخن کا ایک جدید تخلیقی مرقع کے طور پر استقبال کرتا ہوں۔ 
۳۰ستمبر۲۰۱۳ء

غزل۔ کنارِ فرات امتحاں اور بھی ہیں

بدھ, اکتوبر 30, 2013 عرفان وحید 0 Comments


کنارِ فرات امتحاں اور بھی ہیں
لبِ دریا تشنہ لباں اور بھی ہیں


ابھی عشق کی سختیاں اور بھی ہیں
ابھی رہ میں دشتِ زیاں اور بھی ہیں

یہ موقوف کچھ دوستوں پر نہیں ہے
یہاں دشمنِ نقدِ جاں اور بھی ہیں

کڑی دھوپ تھی راحتِ جاں، جو سمجھا
مری راہ میں سائباں اور بھی ہیں

نہیں ایک میرا ہی غم معتبر کچھ
-دکھی دل ہزاروں یہاں اور بھی ہیں۔

ہمیں ہے امیدِ کرم ان سے ورنہ
ستم کچھ ورائے گماں اور بھی ہیں

ابھی ہیں اندھیرے جو غالب تو کیا غم
ابھی کچھ دیے ضو فشاں اور بھی ہیں

اگر ایک دیوار ہے بے مروت
شجر اور بھی، سائباں اور بھی ہیں

عرفان وحید۔۳۰/اکتوبر، ۲۰۱۳

0 comments:

تبصرہ کیجیے

تکثیری معاشرہ اور ہمارا مطلوبہ رویہ -آخری قسط

جمعرات, اکتوبر 10, 2013 عرفان وحید 0 Comments

دوسروں کے سب و شتم سے احتراز

مسلمانوں کا دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے تئیں رویہ اسلام کے عمومی انسانیت نواز نظریے سے جلِا پاتا ہے۔ ہم اس سے پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے مذہبی جذبات کے احترام کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن کا ایک واضح فرمان مسلمانوں کو دوسروں کے دیوتاؤں اور خداؤں کے سبّ و شتم سے گریز کرنے کا حکم دیتا ہے

نظم۔ کاروانِ سخت جاں

بدھ, اکتوبر 02, 2013 عرفان وحید 0 Comments



مصر میں فوجی جارحیت سے برسرِ پیکار اخوانی جیالوں کے نام ایک نظم

0 comments:

تبصرہ کیجیے

غزل۔ ہر چند یہاں خیر کا خواہاں بھی وہی ہے

منگل, اکتوبر 01, 2013 عرفان وحید 0 Comments

ہر چند یہاں خیر کا خواہاں بھی وہی ہے
پر آگ لگانے میں نمایاں بھی وہی ہے

0 comments:

تبصرہ کیجیے

تکثیری معاشرہ اور ہمارا مطلوبہ رویہ - قسط ۵

پیر, ستمبر 23, 2013 عرفان وحید 0 Comments

مسلم انفرادیت کی تشکیل :
 ان اقدار سے جو بنیادی اصول تشکیل پاتا ہے اسے ان الفاظ میں سمیٹاجاسکتا ہے: ‘‘اگرچہ نوعِ انسانی کے ساتھ عدل واحسان کے مکمل قیام کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے خالق ، معبود اور مالک کی رضا کاپابندہوجائے، تاہم ان کی تنفیذ کے لیے اس شرط کے مکمل اور مستحسن طورپر پورا ہونے کا انتظارنہیں کیاجائے گا۔’’ قرآن و سنت نے مذکورہ بالا اقدار کی تنفیذ کو اسلامی ، سیاسی اورمعاشرتی نظام کے قیام کے ساتھ مشروط نہیں کیا ہے۔ یہ اقدار انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اسلامی تصور میں مستحکم ہیں۔ مخلوط معاشرے میں ان اقدار پر عمل آوری اور تنفیذ کی جتنی بھی ممکن صورت ہو، مسلمانوں پر اس کے حصول کی جدوجہد واجب ہے۔

تکثیری معاشرہ اور ہمارا مطلوبہ رویہ - قسط ۴

جمعرات, اگست 15, 2013 عرفان وحید 0 Comments

امت مسلمہ کا دعوتی تناظر:  ایک ایسی امت کے لیےکردار کی یہی وہ مطلوبہ تبدیلی ہے جس کا نصب العین، تمام چیزوں سے یکسو کرکے، اللہ نے صرف یہ متعین کیا ہےکہ وہ لوگوں پر اللہ کی شہادت قائم کریں، صراطِ مستقیم کی دعوت دیں، یعنی اپنے خودساختہ خداؤں اور دیوتاؤں کے استبداد اور انھیں جیسے انسانوں کے جبر سے نجات دلائیں جو دولت و قوت کے زور پر انسانوں پر ظلم کرتے ہیں، اور ایک نظام عدل و قسط قائم کریں۔ اس منصب کی خاطر ہمیں پھر سے قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنا ہوگی۔ابدی ہدایت کے سرچشمہ سے روشنی کا یہ اکتساب دور آئند اور دعوت کے حرکی تناظر میں ہونا چاہیے۔ اور اس امر کے احساس کے ساتھ کہ ہم نوع انسانی کا حصہ ہیں اور اسکی اخروی فلاح کے لیے درد مندانہ احساس رکھتے ہیں۔

تکثیری معاشرہ اور ہمارا مطلوبہ رویہ -۳

جمعہ, جولائی 05, 2013 عرفان وحید 0 Comments

مصنف: ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی
ترجمانی: عرفان وحید
جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ، تکثیری معاشرے ہمارے اپنے عمل دخل سے نہیں یہ بلکہ جدید زمانے کی چند ناگزیر صورتِ حالات کی دین ہیں۔ ساری دنیا کے مسلم معاشرے تبدیلی کے موافق نقطہ نظر  کے باوجود تنہا اپنے معاشروں کی بازتشکیل نہیں کرسکتے۔ دنیا کے اکثر حصوں میں وہ اقلیت میں ہیں اور اسی حیثیت میں رہتے ہوئے انہیں متنوع مذاہب اور مختلف تہذیبوں سے وابستہ افراد کے ساتھ تعامل کرنا ہے تاکہ اپنے ہم وطن و ہم سایہ عوام کی زندگیاں بہتر بنانے کی جدو جہد میں شریک ہوسکیں۔

تکثیری معاشرہ اور ہمارامطلوبہ رویہ- ۲

اتوار, مئی 05, 2013 عرفان وحید 0 Comments


مصنف: ڈاکٹر فضل الرّحمٰن فریدی
ترجمانی: عرفان وحید


اس امت کا یہ وصف بھی اتنا ہی اہم ہے کہ اس کا نصب العین ہے اللہ کا پیغا م انسا نیت تک پہنچا نا تا کہ وہ حق کو پہچان کر اسلا م کی حقا نیت اور اس کی آفا قی اقدار کو جا ن لیں ۔ قرآن امت کے اس نصب العین  کی تعریف درج ذیل آیت میں معین کرتا ہے:
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ
اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک "امت وسط" بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ البقرة: ۱۴۳
ایک پُر زور بیا ن میں قرآن حکیم اس امت کی بعثت اور تخلیق کا مقصد اسی منصب کو قرا ر دیتا ہے:
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو- آل عمران:۱۱۰
سوال ہے کہ ایسی امت اپنے نصب العین سے عہدہ بر آ ہو تے ہو ئے ایک تکثیری معا شرے کے تقا ضو ں کو کس طر ح پور ا کرے؟

تکثیری معاشرہ اور ہمارامطلوبہ رویہ - ۱

اتوار, اپریل 28, 2013 عرفان وحید 0 Comments

نام کتاب: لِونگ ایز اے مسلم ان اے پلورل سوسائٹی
نام مصنف: ڈاکٹر فضل الرّحمٰن فریدی
پبلشر: اسلا مک فا ؤ نڈیشن ٹرسٹ ، چنئی ۱۹۹۸
ارو ترجمہ: تکثیری معاشرہ اور ہمارامطلوبہ رویہ
مترجم: عرفان وحید

زیرِ نظر طویل مقالہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی مرحوم کی انگریزی تحریر"لِونگ ایز اے مسلم ان اے پلورل سوسائٹی" کا ارو ترجمہ ہے جو راقم الحروف نے مولانا نذر محمد مدعو، سابق امیرِ حلقہ مہاراشٹر کی خواہش و ایما پر کیا تھا۔ ماہنامہ رفیقِ منزل میں یہ طویل مقالہ ۵ قسطوں میں شائع کیا جائے گا۔ اس کی پہلی قسط رفیق منزل کے شمارہ مئی ۲۰۱۳ میں شائع ہوئی۔ افادۂ قاری کے لیے اسے بلاگ پر پیش کیا جا رہا ہے۔

میں آبرو ہوں

بدھ, جنوری 16, 2013 عرفان وحید 0 Comments

قارئین، میں آبرو ہوں۔ جی ہاں وہی آبرو جس کے دم سے کائنات کی حسین تصویر میں رنگ ہے،جو مردوں کی شان ہے اور عورتوں کا زیور۔ وہی آبرو جس کی خاطر غیور اقوام اپنا خون تک بہانے کے لیے تیار رہتی ہیں، اور جو ایک بار رخصت ہو جائے تو واپس نہیں آتی۔ حالیہ برسوں میں وطن عزیز میں میرے ساتھ بہت برا سلوک ہوا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔

0 comments:

تبصرہ کیجیے