آج کچھ درد میں کمی سی ہے

پیر, اکتوبر 20, 2014 عرفان وحید 0 Comments



دل کو پھر ایک بے کلی سی ہے
ہم کو پھر آپ کی کمی سی ہے

اس سے تسلیم بس یونہی سی ہے
برف احساس کی جمی سی ہے

چلیے، احباب کو تو جان گئے!
یہ مصیبت تو عارضی سی ہے

کچھ تو چارہ گری کرے کوئی
آج کچھ درد میں کمی سی ہے

کون محو سخن ہے دیکھو تو
ایک عالم میں خامشی سی ہے

آج چپکے سے کس کی یاد آئی
دل کے آنگن میں چاندنی سی ہے

مژدہ شاید ہو اس کی آمد کا
یہ سحر کچھ نئی نئی سی ہے

کس نے ترک وفا کیا پہلے؟
یہ شکایت بھی باہمی سی ہے

حسرتو، اب تو ہو چلو خاموش
نبض بیمار کی تھمی سی ہے

عمر گزری جسے بیاں کرتے
وہ کتھا اب بھی ان کہی سی ہے

نوبیل امن انعام کی سیاست

ہفتہ, اکتوبر 18, 2014 عرفان وحید 2 Comments



اکتوبر ۲۰۱۲ کی  ایک سہانی دوپہر ہے۔ شمالی وزیرستان میں ایک آٹھ سالہ بچی نبیلہ رحمان اپنے بھائی بہنوں اور دادی کے ساتھ کھیت میں کام کر رہی ہے۔عید الاضحی  قریب ہے۔ نبیلہ کی دادی اپنے پوتے پوتیوں کو کھیت سے بھنڈی چننا سکھا رہی ہے۔ کسے خبر تھی کہ آج ایک ایسا اندوہناک سانحہ ہونے والا ہے  جو اس ہنستے کھیلتے خاندان کی زندگی کا دھارا بدل کے کھ دے گا۔ ناگہاں بچوں کو آسمان میں ایک مخصوص گونج سنائی دیتی ہے۔ یہ امریکی ڈرون ہے،  ایک ننھا سا مسلح طیارہ،  جس کی گونج اس خطے کے باشندوں کے لیے روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔  یہ ڈرون ہر وقت فضاؤں  میں لوگوں کے تعاقب میں منڈلاتے رہتے ہیں۔ لوگ بھی ان پر اب زیادہ توجہ نہیں دیتے کہ یہ عام شہریوں کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں ہیں۔
 مگر یہ کیا؟
  اچانک  ڈرون سے ہلکی سی کلک کی آواز آتی ہے اور اس سے نکلنے والے گولے نبیلہ اور اس کے بھائی بہنوں پر برسنے لگتے ہیں۔ حیرت اور دہشت کی ملی جلی کیفیت میں نبیلہ کو اس کے سات بھائی خاک اور خون میں غلطیدہ نظر آتے ہیں۔ نبیلہ کی ضعیف دادی اس کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ دیتی ہے۔

بھرا پرا کنبہ بکھر جاتا ہے۔ اس حادثے پر آج تک سی آئی اے اور امریکہ کی طرف سے کوئی معذرت، ہرجانہ یا توجیہہ نہیں پیش کی گئی ۔ نبیلہ کے ننھے سے ذہن میں ایک ہی سوال ہے۔ آخر کیوں؟ کس جرم میں اس کے معصوم بھائیوں اور دادی پر حملہ کیا گیا؟

دو سال بعد، اکتوبر ۲۰۱۴ میں، نبیلہ یہی سوال لیے اپنے ٹیچر والد اور بارہ سالہ بھائی کے ہم راہ امریکہ کا رخ کرتی ہے۔ اسے امید ہے کہ یہاں اس کی شنوائی ضرور ہو گی۔ لیکن  افسوس ان کی توقع کے برعکس انہیں ہر سطح پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ نہ میڈیا ان کو کوریج دیتا ہے اور نہ اربابِ حکومت  ہی ان کی بات پر کان دھرتے ہیں۔ آخر کار امریکی کانگریس کی ایک مجلس میں نبیلہ کے کنبے کو اس واقعہ کی  شہادت کے لیے تاریخ مل ہی جاتی ہے ۔ اس مجلس میں ۴۳۰ ارکان  کی شرکت متوقع تھی ۔ مگر محض ۵ لوگ حاضر ہوتے ہیں۔ نبیلہ  کے والد ان سے کہتے ہیں کہ انہوں نے اتنی صعوبتیں جھیل کر امریکہ کا سفر محض  اس لیے کیا ہے کہ بحیثیت ٹیچر وہ امریکیوں کو بتا سکیں کہ ان کے بچے اور ان کی والدہ کوئی دہشت گرد نہیں تھے ، اور نہ ہی وہ دہشت گردوں جیسے نظر آتے تھے ۔ اس قسم کے سینکڑوں واقعات اس خطے میں ہوتے رہتے ہیں ، جنہیں  یکسر بند ہونا چاہیے۔

اب ایک اور منظر ملاحظہ کیجیے۔

نبیلہ اور اس کے کنبے پر حملے سے محض دو ہفتے پہلے، یعنی اوائل اکتوبر ۲۰۱۲ کی ایک دوپہر،سوات  کی گل پوش وادی سے ایک پرائیویٹ اسکول کی وین بچوں کو لیے اسکول سے واپس ہو رہی ہے ۔  اچانک  ایک موڑ پر چند نقاب پوش وین کو روکتے ہیں اور اس میں سوار ہو جاتے ہیں۔ یہ طالبان ہیں جو خطے میں لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف ہیں اور اسکولوں کو بند کرنا ان کا مشغلہ ہے ۔ ان میں سے ایک نقاب پوش اپنی گن لہراتا ہوا غراتا ہے: "تم میں سے ملالہ کون ہے۔ " تمام  بچیاں  سہم جاتی ہیں، اور ایک ۱۵ سالہ بچی کی طرف دیکھنے لگتی ہیں جو بس میں سوار واحد ایسی  بچی ہے جس نے نقاب نہیں اوڑھ رکھا ہے۔ طالبان سمجھ  جاتا ہے کہ یہی ملالہ ہے۔ وہ اپنی کولٹ ۴۵ ریوالور سے بچی پر تین فائر کرتا ہے ۔ ایک گولی آنکھ کے قریب سے گزرتی ہوئی گلے میں لگتی ہے۔ ملالہ اپنے سہیلی منیبہ کے اوپر گرتی ہے۔ دو گولیاں  اس کی ہمجولیوں  کو  بھی لگ جاتی ہیں۔ کائنات ریاض کا شانہ اور شازیہ  رمضان کا  ہاتھ زخمی ہو جاتا ہے۔  طالبان ملالہ کو مردہ سمجھ کر وین سے اتر جاتے ہیں۔  ملالہ اور اس کی ساتھی سہیلیوں کو فوراً   قریبی ہسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ ملالہ کی حالت بہت نازک ہے۔  یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔  ریڈیو اور ٹی وی طالبان کی اس جارحیت پر چیخنے لگتے ہیں۔ اخباروں میں اداریے لکھے جاتے ہیں۔ اسمبلیوں میں اس حملے کی مذمت کی جاتی ہے۔ دنیا بھر کی انسان دوست تنظیمیں  اپنے مذمتی بیان جاری کرتی ہیں۔ پاکستان، امریکہ  اور یوروپ  ہر جگہ ملالہ کا تذکرہ ہے اور اس کی زندگی کے لیے   اجتماعی دعائیں کی جاتی ہیں اور شمعیں جلائی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ امریکی صدر اوباما اپنے مشیروں سے کہتے ہیں کہ ملالہ کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ ملالہ کو خصوصی طبی امداد پہنچائی جاتی ہے۔ اسے پیشاور کے ہسپتال سے ائر لفٹ کرکے لندن پہنچایا جاتا ہے  جہاں  برمنگھم کے ایک ہسپتال میں اس کا بہترین ڈاکٹروں کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔ اور، حیرت انگیز طور پر  ملالہ  وہاں تیزی سے رو بہ  صحت ہو نے لگتی ہے۔

اس واقعہ کے بعد ملالہ یوسف زئی بہادری اور جرأت کی نئی علامت کے طور پر ابھرتی ہے۔  تاہم مغرب کے لیے اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ طالبان مخالف ہے۔ اسے امریکہ اور مختلف ممالک سے ۳۴ مختلف اعزازات سے نوزا گیا۔اقوام متحدہ  نےعالمی تعلیم اطفال کے لیے ۲۰۱۳ سے ملالہ ڈے منانے کی تجویز پیش کی۔ اور اس سال کے نوبیل امن انعام  کے لیے مشترکہ طور  ملالہ یوسف زئی اور ہندوستان کے کیلاش ستیارتھی کے نام کا اعلان کیا گیا ہے۔۱۷ برس کی عمر میں ملالہ  دنیا کی سب سے کم عمر نوبیل انعام یافتہ ہے۔ اس سے پہلے یہ اعزاز ۳۲ سالہ یمنی صحافی و سیاست دان توکل کرمان کو حاصل تھا۔

کیلاش ستیارتھی کا تعلق مدھیہ پردیش کے ودیشہ ضلع سے ہے ۔ انہوں نے اپنا الیکٹریکل انجنیرنگ کا پیشہ ترک کرکے حقوق اطفال کے تحفظ کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ وہ محض ۲۶ سال کے تھے جب انہوں نے بچپن بچاؤ آندولن کے نام سے ایک این جی او شروع کی اور انتھک جدو جہد اور مساعی کے بعد  اسے ایک عالمی سطح کی تحریک میں بدل دیا۔ اس تحریک کے ذریعے ہزاروں بچوں کو بندھوا مزدوری ، جبری مشقت اور بردہ فروشی سے نجات دلائی  گئی ہے۔ مختلف تنظیموں کے تعاون سے ستیارتھی نے بڑی کامیابی کے ساتھ متعدد فیکٹریوں اور گوداموں پر کامیاب چھاپے پڑوائےجہاں بچوں سے جبری مزدوری کروائی جاتی تھی۔  یہ ستیارتھی ہی تھے جنہوں نے 'رگمارک' جیسے منصوبے کو  کامیاب کیا۔ اس منصوبے کے تحت قالین کی صنعت سے منسلک اداروں کو تصدیق نامہ دیا جاتا ہے کہ ان کے قالین بنانے میں کسی بچے سے مزدوری نہیں کروائی گئی۔ یہ منصوبہ انتہائی کامیاب رہا اور بیرون ممالک میں بچہ مزدوری کے لیے حساسیت پیدا کرنے میں اس نے خاص رول ادا کیا۔ کیلاش ستیارتھی سے ایک بار پوچھا گیا کہ انہیں اس مشن کی تحریک کہاں سے حاصل ہوئی تو ان کا جواب تھا حضرت محمد ﷺ سے۔ پیغمبر اسلام ﷺنے  ہمیشہ غلاموں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تلقین کی ہے اور انہیں آزاد کرنے کو بہت بڑی عبادت قرار دیا ہے۔

ستیارتھی کا کام ہندوستان تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ ۶۰ سے زیادہ ممالک میں ان کی تحریک فعال ہے۔ ۱۹۹۸ میں انہوں نے چائلڈ لیبر کے خلاف ایک عالمی مارچ شروع کیا جو ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک سے ہوتا ہوا جنیوا میں اختتام پذیر ہوا۔ ایک سال بعد بین الاقوامی محنت کشوں کی تنظیم (ILO) نے ایک  قرارداد پاس کی جس کی رو سے بین الاقوامی طور پر خطرناک پیشوں سے  منسلک بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔ تاہم ستیارتھی بھی تنازعات سے بری نہیں ہیں۔ انہیں پراجیکٹ کرنے میں کچھ متنازعہ بین الاقوامی اداروں کے نام آرہے ہیں۔  اس کے علاوہ ستیارتھی اپنے کام کے باوجود ہندوستانی میڈیا کے لیے بھی ابھی تک گمنام سی شخصیت رہے ہیں۔ بچہ مزدوری کے خلاف سب سے پہلی مہم سوامی اگنی ویش نے اپنے بندھوا مکتی مورچہ کے  ذریعےچھیڑی تھی۔ ستیارتھی بھی  کبھی اس تنظیم کا حصہ تھے لیکن بعد میں ان سے الگ ہو کر اپنی نئی تنظیم شروع کرلی۔ فاربس میگزین کی میگھا بہر ی لکھتی ہیں کہ جب انہوں نے اس تنظیم کا دورہ کیا تو انہیں مختلف جگہوں پر لے جایا گیا جہاں سے بچوں کو 'بچایا' گیا تھا۔ ان کی تیز صحافیانہ نظروں نے تاڑ لیا کہ یہ محض غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کا حربہ ہے۔ ان کے بقول:
 جتنے زیادہ بچے دکھائے جائیں گے اتنی ہی زیادہ غیر ملکی اعانتیں حاصل ہوں گی۔
  مدھو کشور کے مطابق ۱۲ سال پہلے امریکی اور جرمن تنظیموں نے ستیارتھی کی تنظیم کو ۲۰ لاکھ ڈالر کا تعاون دیا تھا۔

بایں ہمہ، ستیارتھی کا کام قابلِ ستائش ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ہزاروں بچوں کو جبری مشقت سے نجات دلائی ہے۔ البتہ  ان کے حق میں نوبیل امن انعام کا اعلان خالص سیاسی فیصلہ ہے۔ نوبیل پرائز کمیٹی کے الفاظ اس بات کی کھلی چغلی کھا رہے ہیں:
نوبیل کمیٹی  کے نزدیک یہ امر اہم ہے کہ تعلیم کی خاطر اور تشدد کے خلاف ایک ہندو اور ایک مسلم، ایک ہندوستانی اور ایک پاکستانی، مشترکہ جدوجہد میں شامل ہوں۔" یہاں انعام یافتگان کے ملی و ملکی تشخص پر زور دینا سیاسی مصلحت سے خالی نہیں ہے۔

نوبیل پرائز کمیٹی کے چیئر مین ، تھور بیورن جیگ لینڈ (Thorbjorn Jagland) نے ان الفاظ میں ملالہ کوخراج عقیدت پیش کیا ہے:
اپنی کم عمری و نو خیزی کے باوجود، ملالہ کئی برسوں سے بچیوں کی تعلیم کی خاطر جدوجہد میں مصروف ہے اور اس نے اس بات کا نمونہ پیش کیا ہے کہ نو عمر لوگ بھی اپنے گردوپیش کے حالات بہتر بنانے میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اس نے یہ کام انتہائی خطرناک  اور ابتر حالات میں انجام دیا ہے۔ اپنی جرأت مندی کے باعث وہ تعلیم نسواں کی سربرآوردہ ترجمان  قرار پاتی ہے۔
 پاکستان کے وزیرِ اعظم نے اسے فخرِ پاکستان کہا۔ عمران خان نے بھی ، جو اس سے قبل  مغرب کی "ملالہ پسندی" پر تنقید کرتے تھے، ملالہ کو نوبیل انعام ملنے پر مبارک باد دی ہے۔  تاہم پاکستان کے عوام کا تأثر ملا جلا ہے۔ جہاں بعض لوگ اسے ستارہ جرأت مانتے ہیں ، وہیں  بعض  افراد اسے امریکہ کا ایجنٹ  بھی سمجھتے ہیں۔

ملالہ کو شہرت  اس پر حملےسے کئی برس پہلے مل چکی تھی۔ ۲۰۰۹ میں نیو یارک ٹائمز کی ایک ڈاکیومنٹری فلم میں ملالہ کو پروفائل کیا گیا تھا۔ ڈاکیومنٹری کا عنوان تھا ' کلاس ڈسمسڈ'۔ اس وقت ملالہ محض ۱۱ سال کی تھی۔  فلم میں ملالہ اوباما کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک سے ملاقات کرتی ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ سوات میں طالبان کے خلاف آپریشن میں اس نے خاطر خواہ تعاون دیا ہے۔  ۲۰۱۱ میں ڈیسمنڈ ٹوٹو  نےملالہ کو بچوں کے عالمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا تھا۔ یہ اعزاز ملالہ کو گل مکئی کے قلمی نام سے بی بی سی اردو میں بلاگنگ کرنے اور عالمی میڈیا کو خطے کے حالات سے باخبر کرنے میں اس کے تعاون کے اعتراف میں دیاگیا تھا۔  بہت سے لوگ تعجب کرتے تھے کہ آخر سات آٹھ سال کی بچی سیاسی ڈائریاں کیسے لکھ سکتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ بعد میں مختلف ذرائع سے یہ بات سامنے آئی کہ گل مکئی نے نہیں بلکہ بی بی سی کے نمائندے عبدالحئی  کاکڑ نے  یہ ڈائریاں لکھیں اور اس کے لئے ملالہ اور اس کے والد سے اجازت لینے کے ساتھ ان کو معاوضہ بھی ادا کیا گیا تھا۔

گل مکئی کے فرضی نام سے ملالہ نے  ۲۰۰۹میں بی بی سی پر ڈائری لکھنا شروع کی تھی ۔ ڈائری لکھنے کی وجہ اس کے  اسکول کا بند ہونا بتایا گیا ہے کہ طالبان نے اس کا اسکول بند کردیا تھا اور ملالہ کو اپنی تعلیم جاری نہ رکھنے کا بہت ملال تھا۔ یہاں یہ بات واضح کردی جائے کہ ملالہ یوسف زئی اپنے والد ضیاء الدین یوسف زئی کے اسکول 'خوشحال پبلک اسکول اینڈ کالج'  میں زیر تعلیم تھی اور اس اسکول کو نہ تو اس وقت تک دھمکیاں دی گئیں تھیں اور نہ ہی بند کیا گیا تھا اس لیے یہاں یہ بات غلط ثابت ہوئی کہ ملالہ کا اسکول بند ہوگیا تھا جس کے باعث اس نے ڈائری لکھنا شروع کی۔ ملالہ پر حملہ قابل مذمت ہے اور وحشت و بربریت کا کھلا ثبوت ہے لیکن ان ہزاروں بے گناہ اور معصوم  افراد اور بچوں کو کیوں فراموش کردیا گیا جن کے جسموں کے چیتھڑے ڈرون حملوں سے اڑائےگئے، جنہیں کفن اور جنازہ بھی نصیب نہ ہوا۔مگر ان کے لیے نہ کوئی آنکھ  روئی ، نہ دعا کے لیےکوئی ہاتھ اٹھا، نہ کسی اسمبلی میں قرار داد پاس کی گئی، نہ کوئی واک آؤٹ ہوا اور نہ شمعیں جلائی گئیں۔ ملالہ کی صلاحیتوں سے انکار نہیں ہے، لیکن پاکستان میں ایسے دسیوں بچے ہیں جو غیر معمولی طور پر ذہین ہیں، مضامین لکھتے ہیں اور ٹی وی پر بھی آتے ہیں۔ ملالہ کو طالبان مخالف آئیکن کی حیثیت سے مغربی این جی اوز نے منتخب کیا۔ اس میں تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اکثر اس کی ملاقات امریکی فوج کے سینیئر  افسران، صحافیوں اور ڈپلومیٹس سے کرائی جاتی تھی جیسا کہ ڈاکیومنٹری سے ظاہر ہے۔ ملالہ کو نوبیل دے کرمغرب  نےگویا یہ پیغام دیا ہے کہ تعلیم نسواں  کے تئیں اسلام اور مسلمانوں میں کوئی اہمیت نہیں پائی جاتی ۔ لڑکیوں کے ساتھ اسلامی معاشرے میں امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ملالہ نے نہ صرف طالبان سے مخالفت میں بلکہ تمام مسلم معاشرے کی مخالفت میں ناموافق حالات میں تعلیم نسواں کی وکالت کی ہے اور  تعلیم اور مساوات جیسی اعلی مغربی اقدار کو فروغ دیا ہے۔ ایسے "تاریک معاشرہ" میں ملالہ نے جو شمع روشن کی ہے اس کا صلہ نوبیل سے کم کیا ہوگا۔ 

ملالہ  کی شخصیت تو شروع سے متنازع تھی  ہی ، رہی سہی کسر اس کی کتاب 'I am Malala' نے پوری کر دی۔  کتاب پڑھیےتو اس میں جا بجا دل آزار باتیں ملیں گی۔ سلمان رشدی کی حمایت، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والے واقعہ اور  ناموس رسالت  کے قانون وغیرہ کو آزادیٔ اظہار کا مسئلہ بناکر پیش کرنا۔ یہ سب پڑھ کر لگتا نہیں کہ یہ سولہ سالہ بچی کی آواز  ہے۔ کتاب  لکھنے میں کرسٹینا لیمب نے ملالہ کی معاونت کی تھی ۔ محسوس ہوتا ہے کہ بات معاونت سے آگے بڑھ کر رنگ آمیزی تک جا پہنچی ہے۔ مستشرقین کے جتنے اعتراضات اسلام پر ہیں کم و بیش تمام اس کتاب میں مل جائیں گے۔ آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن نے تمام پاکستانی پرائیویٹ اسکولوں میں ملالہ  کی  کتاب پر پابندی عائد کر دی ہے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ کتاب کے متن میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو سکول کے بچوں کو ابہام میں مبتلا کر دیں گی۔

ایک تجزیہ نگار ڈیوڈ سوانسن لکھتا ہے کہ
ملالہ کا مغربی میڈیا میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ مغربی استعمار کے دشمنوں کا شکار ہوئی تھی۔ اگر وہ سعودی حکومت  یا اسرائیل  یا کسی بھی ایسی حکومت کی جارحیت کا شکار ہوئی ہوتی جنہیں مغربی ممالک اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو نہ تو ہمیں اس پر حملے کی بھنک لگتی اور نہ اس کے اچھے کاز کی خبر ملتی۔ اگر وہ محض پاکستان یا یمن میں ڈرون سے شکار ہونے والے بچوں کی وکالت کرتی توآج  امریکی ٹی وی ناظرین کے لیے بالکل اجنبی ہوتی۔

 چین میں  بھی میڈیا ملالہ کے انعام کو مشکوک نظروں سے دیکھتا ہے۔ چینی میڈیا کے مطابق یہ انعام  پاکستان اور افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کو مثبت انداز میں دکھانے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔  شنگھائی انسٹی ٹیوٹ  آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈائرکٹر ژاؤ گانشنگ کے مطابق :
ملالہ کا پروپیگنڈا افغانستان سے امریکی فوجی دستوں کے انخلا کے ساتھ ہی شروع ہوا تھا۔ مغرب ملالہ کی کہانی کو دیگر ممالک میں اپنی فوجی مداخلت کو حق بجانب ٹھہرانے اور اس کے روشن پہلو مثلاً تعلیم نسواں اور سیاست میں خواتین کی شمولیت کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے جبکہ اس کے تاریک پہلو  مثلاً بڑھتا ہو تنازع اور پیچیدگی اور بڑے پیمانےپر شہریوں کی ہلاکت کو دبایا جارہے ۔ 

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر میک کنسے اینڈ کمپنی کے بارے میں بہت اپڈیٹس آرہے ہیں۔ یہ عالمی مینجمنٹ کنسلٹنگ  کمپنی ہے جو ملالہ پراجیکٹ کے پیچھے کار فرما ہے۔ ملالہ کی میڈیا پروموشن بہت کچھ اسی کمپنی کا  کارنامہ ہے۔

نوبیل  امن انعام ہمیشہ متنازع رہے ہیں۔ یہ انعامات یا تو خوشامدی نوعیت کے ہوتے ہیں  جو یوروپ اور امریکہ کی سیاسی شخصیات کو خوش کرنے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں یا پھر سرے سے غیر منطقی ۔ اس سال کل ۲۷۸ نامزدگیاں تھیں جن میں پوپ فرانسس ، کانگو کے ڈاکٹر ڈینس مکویج اور ایڈورڈ اسنوڈین جیسے اہم نام شامل تھے۔ عموماً نوبیل امن  ایوارڈ امن پسند افراد یا تنظیموں کو ہی دیا جاتا ہے لیکن اس کی تاریخ ایسی بھی رہی ہے کہ انتہائی وحشیانہ ماضی رکھنے والوں کو بھی یہ انعام ملا ہے۔ ایسے لوگوں میں سرِ فہرست ہنری کسنجر ہے جسے ۱۹۷۴ میں  شمالی ویتنامی لیڈر لی ڈک تھو کے ساتھ مشترکہ طور پر امن انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا تھا۔ کسنجر کو یہ انعام ویت نام میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے دیا گیا جبہج جنگ اس انعام کے دو سال بعد تک جاری رہی۔۔ لی ڈک تھو نے یہ کہہ کر انعام لینے سے انکار کردیا تھا کہ امن معاہدے پر عمل درآمد ہی نہیں ہوا تو امن انعام کس بات کا؟ کسنجر تاریخِ عالم کے بدترین جنگی جرائم کا مجرم ہے جس نے ویتنام کی جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا اور ہزاروں افراد کی ہلاکت کا سبب بنا تھا۔ امن انعام حاصل کرنے کے بعد بھی کسنجر کمبوڈیا کی جنگ میں بربریت کا ننگا ناچ ناچنے سے باز نہیں آیا۔

۱۹۹۴ میں  فلسطین کے یاسر عرفات اور اسرائیل کے شمعون پیریز اور اضحاک رابن کو مشترکہ امن ایوارڈ دیا گیا تھا۔ شمعون پیریز اسرائیل کو نیو کلیئر قوت بنانے کے لیے ذمہ دار تھا۔ اس کے بعد ۱۹۹۶ میں اس پر لبنان کے قانا میں قتلِ عام کروانے کا بھی الزام ہے جس میں ۱۰۶ افراد ہلاک اور ۱۱۶ زخمی ہوئے تھے۔ رابن اسرائیل کی ملٹری میں افسر تھا جس نے ۱۹۴۸ کے نکبہ میں فلسطینیوں  پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے تھے اور  انہیں ان کے وطن سے ہجرت پر مجبور کیا ۔ یہ شخص بھی  ہزاروں افراد کی ہلاکت کا سبب بنا۔

۲۰۰۹ میں  جب نوبیل کا امن ایوارڈ امریکی صدر باراک اوباما کی جھولی میں ڈالا گیا تو ساری دنیا پرائز کمیٹی کی اس ستم ظریفی پرششدر رہ گئی۔ اوباما کو صدارت سنبھالے ابھی ۱۲ دن ہی ہوئے تھے کہ ان کی"غیر معمولی امن مساعی"  کی خاطر ان کی نامزدگی عمل میں آگئی۔ جبکہ اوباما نے  پاکستان اور افغانستان میں ڈرون آپریشن کو آگے بڑھایا، لیبیا پر بم برسائے اور اب شام پر فوج کشی کر رہا ہے۔ ۲۰۱۲ میں یہ انعام یوروپین یونین کو دیا گیا جبکہ سب جانتے ہیں کہ اس کی ماتحت عسکری تنظیم ناٹو افغانستان اور لیبیا میں جارحیت کے لیے ذمہ دار ہے۔  ۲۰۱۰ میں ایک چینی لیو شیاؤبو (Liu Xiaobo) کو اس انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ جبکہ اس سے ایک برس پہلے لیو کو ۱۹۸۹ میں دنگے بھڑکانے کی پاداش میں ۱۱ سال کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ چین کی وزارت خارجہ نے اس کا سخت نوٹس لیا اور کہا کہ لیو شیاؤبو ایک مجرم ہے جس نے چینی قانون کو توڑا ہے یہ  نوبیل انعام کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے اور   ایسے شخص کو انعام دینا خودامن انعام کی توہین بھی ہے۔" ۱۹۷۸ میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے لیے مینکم بگن (Menachim Begin) کو امن انعام دیا گیا ۔  یہ غاصب صیہونی اسرائیلی ریاست کے معماروں میں سے ایک تھا جو اسرائیل کا وزیر اعظم بھی بنا۔ بگن دنیا کی پہلی دہشت گرد تنظیم اِرگُن کا سرغنہ تھا جس نے ۱۹۴۶ میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل میں بم دھماکہ کیا تھا۔ اس حملے میں۹۱ جانوں کا اتلاف ہوا تھا۔

یہ محض چند مثالیں ہیں ورنہ نوبیل انعامات کی پوری تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

فریڈرک ہیفرمہل ناروے کے ایک وکیل ہیں جو گذشتہ کئی برسوں سے نوبیل پرائز کمیٹی کو اس بات پر آمادہ کرنے میں مصروف ہیں کہ امن انعام کے لیے  الفریڈ نوبیل  کی وصیت پر صحیح طور سے عمل درآمد ہو سکے۔ ہیفرمہل نے دو کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی حالیہ کتاب 'Nobel Peace Prize: What Nobel Really Wanted' میں انہوں نے ۱۹۰۱ سے ۲۰۰۹ تک کے تمام ۱۱۹ نوبیل امن انعامات کا تجزیہ کیا اور ثابت کیا ہے  کہ ان میں سے بیشتر انعامات دینا نوبیل کی وصیت کے عین منافی تھا۔ ان کے مطابق گذشتہ دس انعامات میں سے ایک کو چھوڑ کر باقی تمام انعامات بلاجواز اور غیر قانونی ہیں۔ الفریڈ نوبیل نے  ۱۸۹۵ میں اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ
امن کا انعام اس فرد کو دیا جائے جس نے گذشتہ برس میں "اقوام عالم کے بھائی چارے کے لیے، جاری عسکری جارحیت کے سدباب کے لیے اور امن عالم کے لیے مجلس سازی اور  ان کےانعقاد کے لیے سب سے بڑھ کر اور سب سے بہتر کام کیا ہو۔"

ہیفرمہل حالیہ انعام کے بارے میں کہتے ہیں
ہر چند کہ ملالہ یوسف زئی بہادر ہے، ہو نہار ہے اور دلکش شخصیت کی حامل ہے۔ بچیوں کی تعلیم بہت اہم ایشو ہے اور بچوں کی مزدوری کے افسوسناک مسئلہ سے بھی چشم پوشی ممکن نہیں ہے۔ یہ دونوں کاز قابل ستائش ہیں۔ لیکن نوبیل کمیٹی نے ایک بار پھر نوبیل سے وفاداری کا ڈھونگ کیا ہے اور امنِ عالم کے اس منصوبے کو مبہم اور مخفی کر دیا جس کا نوبیل نے خواب دیکھا تھا۔ اگر یہ کمیٹی نوبیل کے لیے وفادار ہوتی تو ضرور اصرار کرتی کہ ملالہ نے اسلحے اور عسکریت کے خلاف کام کیا ہو، ممالک کے درمیان جنگ بندی کی کوشش  کی ہو، اور اسےاس  بات کا گہرا ادراک ہوکہ کیسے عسکری جارحیت تلے عوام  مصائب  سے دو چار ہوتے ہیں۔ نوجوان نسل اس بات کو بزرگوں سے بہتر جان سکتی ہے۔

ملالہ اور نبیلہ ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ دونوں دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔  تاہم ایک مغرب کی آنکھ کا تارہ  ہے جبکہ دوسری  کی بات سننا بھی مغرب اور اس کے حواریوں کو گوار نہیں۔ مغرب کے لیے قابل ِاعتنا صرف وہی ہیں  جو ان کے دشمن کے ہاتھوں جارحیت کا شکار ہوتے  ہیں۔ایسی بے حس ، مصلحت کوش اور ترجیح پسند دنیا میں نبیلہ جیسے بچوں کے لیے شاید ہی کوئی ایوارڈ سیرمنی ہو گی اور شاید ہی  اس کے آنسو پونچھنے کے لیے کوئی آگے آئے گا۔ ایسے حالات میں امن کے ان ٹھیکیداروں کے ذریعے عالمی امن انعام کا اعلان ایک الم ناک اور بیہودہ مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے۔

2 comments:

تبصرہ کیجیے