آج کچھ درد میں کمی سی ہے
دل کو پھر ایک بے کلی سی ہے
ہم کو پھر آپ کی کمی سی ہے
اس سے تسلیم بس یونہی سی ہے
برف احساس کی جمی سی ہے
چلیے، احباب کو تو جان گئے!
یہ مصیبت تو عارضی سی ہے
کچھ تو چارہ گری کرے کوئی
آج کچھ درد میں کمی سی ہے
کون محو سخن ہے دیکھو تو
ایک عالم میں خامشی سی ہے
آج چپکے سے کس کی یاد آئی
دل کے آنگن میں چاندنی سی ہے
مژدہ شاید ہو اس کی آمد کا
یہ سحر کچھ نئی نئی سی ہے
کس نے ترک وفا کیا پہلے؟
یہ شکایت بھی باہمی سی ہے
حسرتو، اب تو ہو چلو خاموش
نبض بیمار کی تھمی سی ہے
عمر گزری جسے بیاں کرتے
وہ کتھا اب بھی ان کہی سی ہے