اسلاموفوبیا: محرکات ، اثرات اور تدارک



مئی ۲۰۱۵: ممبئی میں ایک ایم بی اے گریجوئیٹ ذیشان علی خان کو ایک کمپنی نے یہ کہہ کر نوکری دینے سے انکار کر دیا کہ “وہ صرف غیر مسلم امیدواروں کو ہی ملازمت پر رکھتے ہیں۔”
۲۵ اگست: منگلور میں ایک لڑکے شاکر کو مبینہ طور پر بجرنگ دل کے کارکنوں نے کھمبے سے باندھ کر بے رحمی سے پیٹا اور اس کے کپڑے تار تار کردیے۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک غیر مسلم لڑکی سے بات کی تھی۔
۳۱ اگست: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے جشن طلائی کے موقع پر نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری کے خطاب پر دائیں بازوں کی تنظیموں نے ہنگامہ برپا کردیا۔ جناب انصاری نے اپنے خطاب میں سچر کمیٹی رپورٹ کا حوالہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمانوں کی سماجی معاشی حالت ملک کی پسماندہ ترین درج فہرست ذاتوں اور قبائل سے بھی ابتر ہے۔ ان کی بہبود کے لیے سرکاری سطح پر اثباتی اقدام، فیصلہ سازی اور حکومتی مراعات میں مساوی حصہ داری کے علاوہ تعلیم اور ایمپاورمنٹ کے لیے بھی مساعی کی ضرورت ہے جس میں ملی تنظیموں کو بھی اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ وی ایچ پی اور سنگھ پریوار نائب صدر کی باتوں پر سخت چیں بہ جبیں ہیں اور ان سے استعفی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
۲ ستمبر: دہلی کی میونسپل کونسل نے یہاں واقع بمشکل نصف کلومیٹر طویل اورنگ زیب روڈ کا نام تبدیل کرکے عبدالکلام روڈ رکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس روڈ کا نام تبدیل کرنے کی کئی بار کوشش کی گئی تھی۔ دسمبر ۲۰۱۴میں وزارت داخلہ کے ایک نوٹس کے مطابق تاریخی شخصیات کے نام پر عمارات اور سڑکوں کا نام تبدیل کرنا قانونی پالیسی کی خلاف ورزی ہے۔
۳ ستمبر: مردم شماری کے ڈیموگرافک اعداد و شمار کے منظر عام پر آتے ہی سنگھ پریوار اینڈ کمپنی نے یہ تأثر دینا شروع کردیا گویا مسلمانوں کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کے پیروؤں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہی نہیں اور ایک مخصوص مذہب کی بقا کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ پروین توگڑیا اور ساکشی مہاراج نے اسے نہ صرف “آبادی کا جہاد” قرار دیابلکہ دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے والے مسلمانوں کو قرار واقعی سزا دلوانے کی سفارش کر ڈالی اور انہیں روزگار، ریزرویشن اور دیگر سرکاری مراعات سے بھی محروم کرنے کی اپیل کی ہے۔ توگڑیا کے مطابق “مسلمانوں کی منصوبہ بند شرح افزائش ایک سوچی سمجھی سازش ہے اور اگر ہم اس آبادی کے جہاد کے خلاف نہ کھڑے ہوئے تو بھارت جلد ہی اسلامی ریاست میں تبدیل ہو جائے گا۔” لیکن توگڑیا جی اعداد و شمار سے یہ تجزیہ نہیں کر پائے کہ اگرچہ مسلمانوں کی شرح نمو ہندوؤں سے قدرے بہتر رہی لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ مسلمانوں کی شرح نمو ۱۹۵۱ کے بعد کم ترین سطح پر تھی۔
***
یہ کیلنڈر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کاہے جس کے طرز حکومت میں سیکولر اقدار اور مذہبی آزادی طرۂ امتیاز تصور کی جاتی ہیں۔ جہاں پر مسلمانوں کی آبادی، انڈونیشیا کے بعد، پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ جس ملک نے گوتم، نانک اور گاندھی جیسے مایہ ناز سپوت پیدا کیے جنہوں نے دنیا کو وحدت، اخوت اور امن کا درس دیا۔ محبت اور آشتی کے اس گہوارے میں متذکرہ بالہ واقعات کسی سانحہ سے کم نہیں۔ لیکن افسوس یہ سانحات ہندوستان کے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔
آئے دن فرقہ ورانہ فسادات، جلتے ہوئے مکانات، جھلستی ہوئی لاشیں، ماتم کناں عورتیں اور بچے، شہید ہونے والی مساجد، مسلمانوں کی عام بیچارگی، افلاس اور بے روزگاری، مسلم نوجوانوں پر پولیس کی بربریت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات، بے گناہوں کی تعزیر کا لامتناہی سلسلہ، اخبار، ٹیلی وژن اور الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں اسلام اور اہل اسلام سے متنفر کرنے والے پروگرام اور بیانات، ملت کو تعلیمی اور معاشی سطح پر پسماندہ رکھنے کا منظم منصوبہ، ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی جانب سے مسلمانوں کو گھر فروخت نہ کرنے کا غیر محررہ اصول پھر خواہ وہ کوئی مشہور ہستی ہی کیوں نہ ہو، سیاست، فوج، سرکاری نوکریوں اور زندگی کے تمام شعبوں میں آبادی کے تناسب سے انتہائی کم نمائندگی—یہ تمام باتیں کسی نہ کسی شکل میں اس سماجی عارضہ کا مظہر ہیں جسے اسلاموفوبیا کہتے ہیں۔
عالمی سطح پر صورت حال اور بھی خراب ہے۔ فلسطین، چیچنیا، کوسوو، میانمار، چین، عراق، افغانستان، لیبیا، شام، سوڈان وغیرہ پر استعماری قوتوں کا جبر؛ فرانس، بیلجیم اور دیگر یوروپین ممالک میں حجاب پر پابندی؛ سوئٹزرلینڈ میں ریفرینڈم کے ذریعے مساجد کے میناروں پر پابندی؛ چین میں روزہ رکھنے پر حکم امتناعی، ڈنمارک اور فرانس میں پیغمبر اسلام کے دل آزار اور اہانت آمیز خاکوں کی اشاعت؛ امریکہ میں آئے دن مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے تشدد اور امتیاز کے واقعات؛ اسلام مخالف لٹریچر اور قلم کاروں کا ادبی انعامات سے سر فراز کیا جانا اور انہیں آزادیٔ اظہار کا چیمپین قرار دینا؛ ان تمام باتوں کے پس پردہ اسلام دشمنی اور مسلمانوں کی دل آزاری کا جذبہ کار فرما ہے۔
اسلاموفوبیا کیا ہے؟
اسلامو فوبیا کی اصطلاح کا استعمال سب سے پہلے برطانیہ کے ایک ادارے رنیمیڈ ٹرسٹ نے کیا۔ ۱۹۹۷ میں اس ادارے نے ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا: اسلامو فوبیا سب کے لیے ایک چیلنج۔ رپورٹ میں اسلاموفوبیا کی تعریف مسلمانوں کے تئیں ایک ایسے غیر منطقی رویے اور بے جا ناپسندیدگی کے جذبے کے طور پر کی گئی ہے جس کے نتیجے میں ان سے تعصب، امتیاز اور عدم شمولیت کے جذبات کو فروغ ملتا ہے۔ یہ معاشی، معاشرتی اور عوامی زندگی کا رویہ ہے اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے اسلام کے تعلق سے یہ رائے قائم کر لی جاتی ہے کہ دوسرے گروہوں اور ثقافتوں کے ساتھ اسلام کی کوئی قدر مشترک نہیں ہے اور یہ کہ اسلام ایک مبنی بر تشدد سیاسی نظریہ ہے۔
رنیمیڈ ٹرسٹ کے مطابق اسلاموفوبیاکوئی ایک خوف نہیں بلکہ بہت سے دیگر خوفوں کا مجموعہ ہے۔ متذکرہ رپورٹ کے مدیر رچرڈسن رابنسن کے مطابق “اسلاموفوبیا ایک سنگین ذہنی کیفیت ہے جس کے ذریعے ایک مخصوص گروہ کو اس کا نشانہ بنایا جاتا ہے جب کہ نشانہ بننے والے دفاعی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ جب خود اس رویہ کا حامل فرد اسلام اور مسلمانوں کے موقف کو سمجھنے کی پوری ذمہ داری سے خود کو بری سمجھتا ہے اور اپنی رائے میں تبدیلی کو غیر ضروری قرار دیتا ہے۔ اسلاموفوبیا تمام مذاہب سے نفرت کرنے والے افراد اور اسلام کے ماننے والوں سے معاندانہ رویہ رکھنے والے افراد میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔” رچرڈسن کے مطابق اسلاموفوبیا کی اصطلاح کی موزوں تعریف متعین کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ (رچرڈسن رابنسن - Islamophobia or anti-Muslim racism or what)
رنیمیڈ ٹرسٹ نے اسلام کے تعلق سے “کھلے” اور “بند” ۸ نظریات کا موازنہ کیا ہے جنہیں اسلاموفوبیا کے نفسیاتی رویہ کی علامت قرار دیاہے۔ چند کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے:

  • یہ ماننا کہ اسلام ایک یک سنگی (monolithic)، یکسانیت کا حامل اور جامد مذہب ہے اور کسی قسم کی تبدیلی اور نئے نظریات کو قبول نہیں کرتا۔ 
  • یہ سمجھنا کہ اسلام علیحدگی پسند اور اجنبی (other) ہے، دوسری ثقافتوں کے ساتھ اس کی کوئی قدر مشترک نہیں ہے اور نہ یہ خود دوسروں سے کوئی اثر قبول کرتا ہے۔
  • اسلام کو مغرب سے کم تر سمجھنا، اسے بربریت. و نامعقولیت کا حامل قرار دینا اور یہ ماننا کہ یہ ماقبل تہذیب (primitive) مذہب ہے اور صنفی امتیاز روا رکھتا ہے۔
  • یہ ادراک کہ اسلام تشدد پسند، خطرناک مذہب ہے اور دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے۔ نیز دیگر تہذیبوں کے ساتھ اس کی ازلی آویزش ہے۔
  • اسلام سے عناد کو مسلمانوں کے خلاف امتیازی رویے اور انہیں معاشرہ سے الگ تھلگ رکھنے کے جواز کے طور پر پیش کرنا۔
  • مسلم مخالف رویوں کو فطری اور معمول کے مطابق قرار دینا۔

مذکورہ بند نظریات کا موازنہ کھلے نظریات کے ساتھ کیا گیا جس کی بنیاد اسلام کے احترام، جائز اختلافات، افہام و تفہیم اور تعمیری تنقید پر ہے۔
یوروپ میں جب نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا اور علمی روشن خیالی کی فضا استوار ہوئی تو علمی حلقوں میں چرچ سے عام بیزاری کی فضا پیدا ہو گئی۔ جدت پسندی اور روشن خیالی کے زیر اثر خود عیسائت کا وجود خطرے میں پڑنے لگا۔۔ تھامس ہینک کے مطابق صلیبی جنگوں میں عیسائیت مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار تھی تاہم جب نشاۃثانیہ کے دور میں عیسائیت کی نئی شناخت قائم ہوئی تو اسلام دشمنی دب گئی لیکن تب بھی صلیبی ذہن زندہ رہا۔ ۱۴۵۳ میں جب عثمانیوں نے قسطنطنیہ فتح کرلیا تو اسلام سے عناد کا جذبہ پھر ابھارا گیا۔ مسلمانوں کے خلاف صلیبی ذہنیت کی معاندانہ روش ختم ہونے کے بجائے یوروپ کی سیاسی اور علمی سرگرمیاں  ہمیشہ بیدار رہیں ۔ یہی وہ سیاسی عناد اور مخالفت ہے جو ہمارے دور میں بھی فعال اور زندہ ہے ۔ ایڈورڈ سعید کے مطابق اسلام اور عالم عرب سے مخالفت مغربی ذہن کا بنیادی عنصر رہا ہے۔ اسلام کے خلاف نفرت کے مشترکہ جذبات سے ہی ان میں باہمی اتحاد اور شناخت کا جذبہ پیدا ہوا۔
۹/۱۱ کا امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا ۔ اس حملے کو فوری طور پر مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا۔  جارج بش کا یہ اعلان کرنا کہ ہم صلیبی جنگ کا آغاز کریں گے، دراصل ان عزائم اظہار تھا جن کے لیے صلیبی اور صیہونی تحریکیں عرصہ دراز سے دنیا کو اسلام کے خلاف رائے بنانے کی کوشش میں مصروف تھیں۔ مسلسل دنیا کی ذہن سازی اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کی کوششیں بالآخر بارآور ہوئیں۔ مسلمانوں پر جنگ مسلط کردی گئی ۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کو خونخوار، دہشت پسند، اور امن عالم کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ جب کسی شے کو خوف ناک بنا کر پیش کیا جائے گا تو یقیناً اس کا خوف دل میں بیٹھ جائے گا۔ امریکی مصنف ناتھن لین کے مطابق امریکہ میں اسلاموفوبیا ایک لاکھوں ڈالر کی انڈسٹری کی طرح ابھرا جس سے امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے سیاسی و معاشی مفادات وابستہ ہیں۔
ہنٹنگٹن کے مطابق “مغرب کے لیے اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی کا نہیں بلکہ خود اسلام کا ہے جو ایک اجنبی تہذیب ہے۔” اس کے مطابق مسلمان کبھی بھی مغربی تہذیب میں جذب نہیں ہو سکتے۔ امریکی قدامت پسند ارونگ کرسٹول لکھتا ہے کہ “اشتراکیت کے بعد مغرب کو ایک ایسے دشمن کی ضرورت ہے جس کے نام پر وہ اس انحطاط کو روک سکے جو لبرل ازم سے پیدا ہو رہا ہے۔" مغرب کے لیے اسلام ہی وہ دشمن ہے ، جو نہ صرف اس کا تہذیبی حریف ہے بلکہ سیاست ، معاشرت اور معیشت کا متبادل نظام رکھتا ہے۔
کسی بھی ملک میں اظہار رائے کی بےلگام آزادی کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی بھی ملک ہتک عزت، دشنام طرازی، اہانت، فحش کلامی اور نفرت پھیلانے کی آزادی نہیں دیتا اور اس کے لیے قوانین موجود ہیں۔ یوروپی معاشرہ میں آزادیٔ رائے کا حق نا قابل تنسیخ ہے لیکن اس کے بھی حدود مقرر ہیں اور ان کے تجاوز کرنے پر قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ یوروپین ممالک مثلاً جرمنی، فرانس، اسپین، ہالینڈ، آسٹریا، بیلجیم وغیرہ میں دوسری جنگ عظیم کے موقع پر یہودیوں کے قتل عام (holocaust) کے خلاف لکھنا ،اس کی تردید کرنا اور اس کی تفصیلات شائع کرنا جرم ہے۔ ہولوکاسٹ کی تردید کرنے والے عالمی شہرت یافتہ مصنف ارنسٹ زنڈل (Ernst Zündel) کو ۲۰۰۵ میں کینیڈا سے نکال دیا گیا تھا۔ جرمنی میں اس پر 14 الزامات عائد کیے گئے اور 5 برس کی قید کی سزا سنائی گئی. برطانوی مورخ ڈیوڈ ارونگ کو ۲۰۰۶ میں آسٹریا کی عدالت نے دوسری جنگ عظیم کی تاریخ لکھنے کی پاداش میں ۳ سال کی قید کی سزا سنائی۔ برطانوی عدالت نے ایک پادری کو ۱۲۰۰۰ پونڈ کا جرمانہ عائد کیا تھا کیونکہ اس نے ہولوکاسٹ کا انکار کیا تھا۔ دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کی خلاف لکھنا اور ان کی ہرزہ سرائی کرنا نیز رسول اللہ ﷺ کے توہین آمیز خاکے شائع کرنا آزادیٔ رائے کے نام بلا خوف تعزیر انجام دیے جاتے ہیں۔ ناقدین نے مغرب کے اس دوہرے معیار کی نشان دہی کی ہے کہ ایک طرف تو یہ ممالک یہودیت اور عیسائیت کے تحفظ کے قانون بناتے ہیں اور دوسری طرف اسلام کے خلاف دشنام طرازی پر خاموش رہتے ہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان سے استحصال سے نجات، ترقی ، انصاف اور حکومتی مراعات میں حصہ کے نام پر ووٹ بٹورے جاتے ہیں۔ لیکن جب حکومتیں اپنے وعدے پورے کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو مسلمانوں کی منہ بھرائی کے نام پر ان کا ہاتھ روک دیا جاتا ہے۔ اسلاموفوبیا بھی انتخاب میں کامیاب ہونے کے لیے ایک کارگر نسخہ ثابت ہوتا ہے۔ سادھوی نرنجن جیوتی، ورون گاندھی، ساکشی مہاراج ، یوگی آدتیہ ناتھ اور نہ جانے کتنے ہی نیتاؤں نے اس نسخے کا استعمال انتخابات کی کامیابی کے لیے کیا ہے۔ سرکاری اور نجی ملازمتوں میں مسلمانوں سے تعصب اور امتیاز کا سلوک نئی بات نہیں ہے۔ خود سرکاری طور پر کمیشن کی گئی سچر کمیٹی رپورٹ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیاز کیا جاتا ہے۔ سچر کمیٹی کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب جس ریاست میں سب سے زیادہ ( 11.2فی صد) وہ آسام ہے جو ریاست کی مسلم آبادی30.9 ) فی صد) کے نصف سے بھی کم ہے۔ مغربی بنگال جہاں ایک عرصہ تک کمیونسٹوں کی حکومت رہی ہے جو ہمیشہ مساویانہ معاشرے کا راگ الاپتے رہتے ہیں وہاں پر مسلمانوں کا سرکاری ملازمت میں حصہ محض 4.2 فی صد ہے۔ سچر کمیٹی کے اس نتیجے کا محض حوالہ دینا کہ مسلمان درج فہرست ذاتوں اور قبائل سے بھی پسماندہ ہیں، نائب صدر جمہوریہ جیسی اہم شخصیت کے لیے قابل اعتراض ٹھہرا اور ان پر ہر چہار جانب سے تنقیدوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ گویا مسلمانوں کے حقوق کی بات کرنا بھی اب گوارا نہیں کیا جائے گا خواہ بولنے والا اس ملک کا صدر یا نائب صدرہی کیوں نہ ہو۔ ہندوستان میں اسلاموفوبیا اس مرحلے میں ہے جسے دانشوروں نے تکویری ماڈل (circular model)سے تعبیر کیا ہے۔ جب اسلاموفوبیا کے اثرات سے ملک میں مسلمانوں کی حالت تشویشناک ہو جاتی ہے تو حکومت کچھ تدابیر اور منصوبے اختیار کرتی ہے (بعض اوقات منصوبے بھی سیاسی بے عملی اور تنقید کے سبب ٹھنڈے بستے میں چلے جاتے ہیں)، کچھ نئی ہدایات جاری کرتی ہے ۔ اور جب ان کی بنیاد پر مسلمانوں کی حالت میں بہتری کی کچھ صورت پیدا ہونے کی سبیل نظر آتی ہے تو اسلاموفوبیا کو مسلمانوں کی منہ بھرائی کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے۔
یہ بات عیاں ہے کہ ہندوستانی میڈیا پر ایسے لوگوں کا تسلط ہے جو اسلاموفوبیا کو خوب استعمال کرنا جانتے ہیں۔ گذشتہ عشرے میں پرنٹ اور الیکٹرانک  میڈیا کو خاصا فروغ ملا ۔ خبروں کے تقریباً ۴۰۰ چینل وجود میں آئے۔ ان میں سے معدودے چند نام نہاد مین اسٹریم چینل مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی پر کمر بستہ ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام اور مسلمانوں کی ایک لگی بندھی تصویر ہے ، وہ یہ کہ اسلام وحشیانہ اور جامد مذہب ہے، غیر منظقی ہےفرسودہ ہے، ترقی کا دشمن ہے۔ مسلمان عام طور پر دہشت پسند، جنس گزیدہ، غلیظ اور دقیانوس ہوتے ہیں، وہ خواتین کو پردے کی قید میں رکھتے ہیں، ہر مسلمان کی ایک سے زائد بیویاں ہوتی ہیں، طلاق ثلاثی کی تلوار ہر مسلمان عورت پر لٹکتی رہتی ہے۔مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے، دنیا میں جہاں کہیں مسلمان اگر اپنے حقوق کے لیے بھی برسرپیکار ہیں تو وہ دہشت گردی کی علامت ہیں۔ قرآن میں تشدد کی تعلیم دی گئی ہے، اسلام تلوار سے پھیلا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ القاعدہ، انڈین مجاہدین، سیمی، حرکت الجہادالاسلامی، آئی ایس آئی، جیش محمد، لشکر طیبہ، حزب التحریر، داعش اور نہ جانے کتنی ہی حقیقی یا موہوم تنظیموں پر نا معلوم جگہوں پر تیار کی گئیں ڈاکیومنٹریز دکھائی جاتی ہیں اور ان کی حرکتوں کو تمام عالم اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ کر دکھایا جاتا ہے۔ مسلم سماجی مسائل پر مباحث یا تو شاذ ہی ہوتے ہیں یا پھر غلط فہمیوں کو مزید ہوا دینے کے لیے انہیں بلا موقعہ و محل پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے مباحث میں مسلم نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے ایسے لوگوں کو بلایا جاتا ہے جو متعلقہ موضوع کے بارے میں مطالعہ نہیں رکھتے یا پھر اس طریقے سے دلائل پیش کرتے ہیں کہ اسلام کی جگ ہنسائی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس پر مستزاد پروگرام کا اینکر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ متوازن نقطہ نظر پیش کرنے والے نہ بول پائیں۔ دہشت گردی کے ہر واقعہ کا میڈیا ٹرائل ہوتا ہے اور میڈیا ہی فیصلہ کر دیتا ہے کہ یہ کس تنظیم کا کام ہے۔ فسادات کے موقع پرمیڈیا کا عدم توازن آشکارہو جاتا ہے۔ مسلمانوں پر جبر و ظلم کے واقعات پر کوریج شاذ ہی دیا جاتا ہے۔
بعض ٹی وی چینل اور صحافی اس سے مستثنٰی بھی ہیں۔ گجرات اور مظفر نگر کا سچ ایسے ہی صداقت پسند صحافیوں اور سماجی کارکنوں کا رہین منت ہے، جن میں کلدیپ نیر، آشیش کھیتان، شوما چودھری، سدھارتھ وردھراجن، سوامی اگنی ویش، ہرش مندر، اروندھتی رائے، رویش کمار، راجدیپ ساردیسائی اور انہیں جیسے بے شمار صحافی اور سماجی کارکنان کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے پیشے کی صداقت اور معروضیت کو حرزجان بنایا ہے۔ حقیقیت تو یہ ہے کہ حکمران طبقہ کو اپنی من مانی کرنے سے روکنے میں میڈیا کا یہی طبقہ پیش پیش ہے۔
حل کی تدابیر:
اسلاموفوبیا کے عفریت نے گذشتہ عشرے میں پوری دنیا کو اپنے پنجہ استبداد میں دبوچ رکھا ہے ۔ یوں تو حق و باطل کے درمیان آویزش ازل سے ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حق کے خلاف باطل کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ یوں ہی تا قیامت جاری رہے گا۔صدر اسلام میں بھی یہ فوبیا موجود تھا جب دارالندوہ میں مکہ کے سردار سر جوڑ کر بیٹھتے تھے کہ کس طرح اللہ کے رسول ﷺ اور اسلام کو بدنام کیا جائے اور اس کی اشاعت کو روکا جائے۔ وقت کے رسول کو شاعر اور کاہن تک کہا گیا اور عرب کے قبیلوں میں یہ بات پھیلائی گئی کہ مکہ میں ایک جادوگر ہے جو اس کے زیر اثر آجاتا ہے وہ اپنے آبائی دین کا نہیں رہتا اور اپنے خاندان سے کٹ کر اسی کا ہو رہتا ہے۔ اس کے پاس ایسی چیز ہے جو ماں، باپ، میاں ، بیوی اور بھائیوں کے درمیان تفرقہ پیدا کر دیتی ہے۔ آج کے تناظر میں یوروپی اور امریکی اقوام اسلام کا ہوا کھڑا کر کے یہ کہہ رہی ہیں کہ اگر اسلامی نظام آگیا تو جمہوریت، آزادی اور تہذیب حاضر کی ساری چمک دمک جاتی رہے گی۔
ظاہر ہے اس پروپیگنڈا کا واحد حل وہی ہے جو صدر اول میں تھا وہ ہے اسلام کی دعوت اور اسلام کے تعلق سے غلط فہمیوں کا ازالہ۔ اسلام کے خلاف تمام نفسیاتی خدشوں کا تدارک خود مسلمانوں کے اپنے عمل میں مضمر ہے۔ مشتعل ہونے اور جارحیت کا جواب جارحیت سے دینے میں نہ صرف اغیار کے پروپیگنڈے کو تقویت ملتی ہے بلکہ اس سے خود اسلام کو زک پہنچتی ہے۔
لہٰذا مسئلہ کے حل کے لیے ہمیں ملی مسائل کے حل کی کوشش کرنی ہوگی۔ مسلکی اختلافات اپنی جگہ، لیکن معاملات زندگی اور مشترکہ مسائل کے سلسلہ میں تو مسلمان ایک دوسرے کے معین بنیں۔ سیاسی بیداری، تعلیمی ترقی، مسلمانوں کا معاشی استحکام اس سلسلے کے اہم کام ہیں جن کے لیے ہمارے دانشوروں کو، صرف علما کو نہیں بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے اہل علم اور پروفیشنلز کو، آگے آنا ہوگا۔
خارجی چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج میڈیا کا ہے۔ میڈیا پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسے افراد کی تیاری کرنی ہوگی جو میڈیا کے پروپیگنڈا کا فوری اور شافی جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ مسلمانوں کو حتی الوسع اپنے اخبارات نہ صرف اردو میں بلکہ انگریزی اور دیگر علاقائی زبانوں میں شائع کرنے ہوں گے۔ میڈیا میں سیکولر ذہن کے افراد سے گہرا ربط ضبط پیدا کرنا ہوگا اور ان سے اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے انسانی بنیادوں پر تعاون لینا ہوگا۔ اسلاموفوبیا کے واقعات سے مشتعل ہونے کے بجائے ان پر مناسب قانونی چارہ جوئی کی راہ تلاش کرنی ہوگی اور اس کام کے لیے دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کا تعاون بھی لینا ہوگا۔
اس کے علاوہ اسلام کی ان تعلیمات کو عام کرنا ہوگا جو موجودہ مسائل کا حل پیش کرتی ہیں۔ مثلاً خاندانی نظام کا بکھرتا ہوا شیرازہ، انسانی حقوق، اسلام کا تصور عدل، تصور رحمت، ماحولیات کے تعلق سے اسلام کی تعلیمات وغیرہ۔ دور حاضر کے مسائل کے بنیادی اسباب مثلاً سود، جوا، جمع خوری، نسل پرستی، اباحیت وغیرہ پر تحریکات چلانی ہوں گی اور اس میں برادران وطن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ ملت کے فلاحی اداروں سے برادران وطن کے ضرورت مندوں کی بھی اعانت کو فروغ دینا ہوگا۔ غیر مسلم تنظیموں کے ساتھ مشترکہ اقدار پر مل کر کام کرنا ہوگا ۔  کانفرنسیں اور سیمینار کرنے ہوں گے اور مسائل کے سلسلہ میں ایک علمی اور عملی فضا پیدا کرنی ہوگی۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالی کا ارشاد اس تاریکی میں امید کی کرن ہے: ولا تهنوا ولا تحزنوا وأنتم الأعلون إن كنتم مؤمنين (تم نہ تو کمزور پڑو اور نہ غم کرو۔ اگر تم ایمان پر ثابت قدم رہے تو تمہیں غالب رہوگے۔ )
کتابیات:
ناتھن لین۔ The Islamophobia Industry: How the right manufactures fear of Muslims، پلوٹو پریس، ۲۰۱۲۔
اسلامی فقہ اکیڈمی۔مجلہ: اقلیتوں کے حقوق اور اسلاموفوبیا، ایفا پبلیکیشنز، ۲۰۱۲۔ (زیر نظر تحریر کی تیاری کے لیے اس مجلہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔)
رنیمیڈ ٹرسٹ۔ Islamophobia A challenge for us all، لندن، ۱۹۹۷۔

0 comments:

تبصرہ کیجیے