عشق کو گیسوئے پیچاک سے باندھا گیا ہے

منگل, دسمبر 19, 2017 عرفان وحید 0 Comments



عشق کو گیسوئے پیچاک سے باندھا گیا ہے
اور پھر گردشِ افلاک سے باندھا گیا ہے

0 comments:

تبصرہ کیجیے

فصیلِ حرف میں معنی کا در بنایا جائے

منگل, دسمبر 19, 2017 عرفان وحید 0 Comments


پسِ سکوت، سخن کو خبر بنایا جائے
فصیلِ حرف میں معنی کا در بنایا جائے

0 comments:

تبصرہ کیجیے

کس قدر بے اماں ہے شہرِمراد

اتوار, دسمبر 03, 2017 عرفان وحید 0 Comments


اف یہ وحشت، یہ آگہی کا فساد
کس قدر بے اماں ہے شہرِمراد

0 comments:

تبصرہ کیجیے

ہندوستان میں مسلم پرسنل لا: مختصر تاریخی پس منظر

جمعہ, نومبر 24, 2017 عرفان وحید 0 Comments



انگریزوں کی آمدسےقبل ہندوستان میں جب مسلمانوں کے ہاتھ میں ملک کا اقتدار تھا، اس وقت تمام شعبہ ہائے حیات پر اسلامی قوانین ہی کا اطلاق ہوتاتھا۔ مغلیہ دور حکومت (۱۵۲۶-۱۸۵۸) میں ملک کا قانون اسلامی شریعت تھا۔ مغلوں نے اپنے دور حکومت میں عدالتی نظام کو بخوبی منظم کیا ۔ مورخ واحد حسین  ۱؎  لکھتا ہے کہ مغلیہ دور کے نظام عدلیہ نے ہندوستان کے موجودہ نظام عدالت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ جے این سرکار کے بقول یہ نظام پورے ہندوستان کے متمدن معاشرے کو محیط تھا۔ مغل دور کے ایک معروف مؤرخ ابن الحسن نے لکھا ہے کہ سلطان کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اپنی سلطنت میں قرآنی احکامات اور شریعت اسلامیہ کو نافذ کرے۔ چنانچہ عدالتوں میں دیوانی و فوجداری معاملات کا فیصلہ اسلام کے اصولوں پر ہوتا تھا۔ تاہم غیر مسلموں کو اپنے شادی بیاہ اور وراثت وغیرہ کے معاملات میں ان کے مذہبی یا رواجی قوانین پر عمل کرنے کی پوری آزادی تھی۔ یعنی ان کا اپنا پرسنل لا تھا اور مسلمانوں کا اپنا پرسنل لا۔ پرسنل لا سے مراد خاندانی زندگی کے وہ مسائل ہیں جن کا تعلق شادی بیاہ، طلاق، خلع، زوجین اور اولاد و والدین کے حقوق، وراثت، ہبہ وغیرہ سے ہو۔ فقہ اسلامی میں اسے ’’مناکحات‘‘ سے تعبیر کیا گیاہے جبکہ جدید قانونی اصطلاح میں اسے ’’پرسنل لا ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جدید قوانین کی دوقسمیں ہوتی ہیں: دیوانی (سِول) اور فوج داری (کرمنل) ہیں۔ فوج داری قوانین تمام ملک و الوں کےلیےیکساں ہوتے ہیں اور ان میں نسل، عقیدے یا مذہب کی بنیادپرکسی قسم کی کوئی امتیاز نہیں رکھا جاتا۔ البتہ دیوانی قوانین کاتعلق معاشرتی و تمدنی مسائل اور معاملات سےہے۔ اس کاایک حصہ پرسنل لا ہوتا ہے جس کےتحت مخصوص گروہوں کواختیارحاصل ہوتا ہے کہ خصوصاً عائلی معاملات سےمتعلق معاملات کا فیصلہ مقدمےکافیصلہ اس گروہ کے رواجی یا مذہبی قانون کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ اسی کانام پرسنل لاہے۔
یہ ایک ناقابل تردید واقعہ ہے کہ ہندوستان میں اپنے پانچ سوسالہ دور اقتدار میں مسلم حکمرانوں نے غیر مسلموں کو اپنے پرسنل لا کاپابند نہیں بنایا، بلکہ ہندواپنےمذہب کےمطابق عمل کرتےتھے اور مسلمان پنی شریعت پر۔ انگریزوں کےپونے دو سو سالہ دور حکومت میں بھی ہندوؤں کو ہندو پرسنل لا اورمسلمانوں کومسلم پرسنل لا پرعمل کرنے کا اختیار تھا۔
تاہم جب انگریزاقتدار پر قابض ہوئے تو نہ صرف انھوں نےمسلمانوں کوحکومت سےبےدخل کیا بلکہ منظم انداز میں مسلمانوں کو اپنی شریعت اورتہذیب وتمدن سےبھی محروم کردینےکی مذموم کوشش کی۔ انگریزوں کی آمد کے بعد جب رفتہ رفتہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اقتدار حاصل کرلیا اور ملک کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لینا شروع کیے تو ۱۷۶۵ء میں عدالتوں کی از سر نو تنظیم کی گئی۔ اس وقت بھی انگریز جج مسلمان علما اور ماہرین قانون کی مدد سے اسلامی شریعت کے مطابق ہی فیصلے کرتے رہے۔ ۱۸۶۰ کے عشرے میں مسلمانوں کےفوج داری قوانین پرحملہ ہوا۔ اس کےبعدشریعت کے قانون شہادت، قانون معاہدات، قانون بیع وشرا، یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے تمام اہم قوانین کالعدم قراردےدیےگئے۔ مسلمانوں کوصرف اپنےچندعائلی قوانین پرعمل کرنےکی اجازت رہ گئی۔ یہاں تک کہ ۱۸۶۲ء میں اسلام کے فوج داری قانون کو ختم کرکے انڈین پینل کوڈ کے نام سے نیا قانون نافذ کیا گیا، جو آج بھی اسی نام سے رائج ہے۔ البتہ نکاح، طلاق، خلع، مہر، نان و نفقہ، وراثت ہبہ وغیرہ جیسے عائلی اور شخصی نوعیت کے مسائل کی حد تک اسلامی قانون کو باقی رہنے دیا گیا۔۲؎
انگریز چاہتے تھے کہ مسلمانوں سے ان کے شرعی قوانین بھی چھین لیے جائیں۔ تاہم برطانوی رائل کمیشنوں نےانتباہ دیا کہ مسلمانوں کے پرسنل لا کا ان کےدین وعقیدہ سے گہرارشتہ ہے۔ اسے ان کی روزمرہ زندگی سے الگ کر دینا اور اس میں مداخلت کا مطلب مسلمانوں کےسلگتےہوئے جذبات کوبھڑکادیناہے۔ ۱۸۵۷ کے غدر کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا جس میں انگریزوں کے خلاف مسلمانوں نے جذبہ جہاد کے تحت عظیم قربانیاں پیش کی تھیں۔ انگریزی حکومت مزید کسی عام بغاوت کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ چنانچہ وہ شرعی قوانین میں مداخلت سےبازرہی۔
برطانوی دور حکومت میں ۱۹۳۰ کی دہائی میں میمن برادری کی ایک مسلمان لڑکی نے وراثت کا ایک مقدمہ انگریزی عدالت میں دائر کردیا۔ شریعت اسلامیہ کی رو سے بیٹی لازمی طور پر اپنے باپ کی متروکہ جائداد کی وارث ہوتی ہے۔ تاہم اس مقدمےکافیصلہ ہندورسم ورواج کے مطابق کیا گیا اور ایک مسلمان لڑکی کو باپ کی وراثت میں اس کےحق سےمحروم کردیاگیا۔  اسلامی نقطہ نظر سے یہ ایک صریح ظلم تھا کہ ایک عورت کو محض اس کے عورت ہونے کی وجہ سے میراث سے محروم کردیا جائے۔ تب پہلی بارعلمانےتحفظ شریعت کی آوازبلند کی اور ملک گیر تحریک چلائی۔ زبردست جدوجہد کےنتیجےمیں ۱۹۳۷میں مسلم پرسنل لا (شریعت) اطلاق ’’شریعت اپلیکیشن ایکٹ‘‘پاس ہوا۔ یہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیبی شناخت اورشریعت کی حفاظت کےتعلق سےپہلی کامیابی تھی۔ درحقیقت یہی وہ پہلی لہرتھی جس نےمسلمانوں کی موجودہ مسلم پرسنل لا کےدروازےتک رہنمائی کی۔
شریعت اپلیکیشن ایکٹ میں کہا گیا کہ اس کا اطلاق شادی بیاہ، فسخ نکاح، طلاق، ایلا، ظہار، لعان، خلع، نان و نفقہ، مہر، ولایت، ہبہ اور اوقاف وغیرہ کے معاملات میں جہاں فریقین مسلمان ہوں فیصلے کا قانون (rule of decision) مسلم پرسنل لا ہوگا۔ نیز یہ کہ مسلمانوں کے شخصی نوعیت کے معاملات میں حکومت دخیل نہیں ہوگی اور انھیں اپنے مذہب کے مطابق اپنے معاملات فیصل کروانے کی آزادی ہوگی۔ موجودہ آئین ہند میں اس ایکٹ کو باقی رہنے دیا گیا ہے۔ ۱۹۳۹ء میں جب انفساخ نکاح قانون (Dissolution of Marriage Act, 1939) کا نفاذ عمل میں آیا جس میں فقہ مالکی سے استفادہ کرتے ہوئے ان اسباب کو متعین کیا گیا تھا جن کی بنیاد پر ایک مسلمان عورت اپنے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کرسکتی ہے۔ مثلاً ، اگر شوہر ۴؍ سال تک مفقود الخبرہے، یا ۲؍ سال سے نان و نفقہ نہیں دیتا، یاظلم و زیادتی کرتا ہے یا امراض خبیثہ میں مبتلا ہے وغیرہ، تو اس بنیاد پر عورت فسخ نکاح کا فرمان (decree) حاصل کرسکتی ہے۔۳؎
دستور میں پرسنل لا صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ دیگر مذاہب کے لیے بھی پرسنل لا وضع کیے گئے ہیں۔ ہندو وراثت قانون Hindu Succession Act, 1956)) ہندو، سکھ، بودھ اور جین کے لیے جائداد کی تقسیم کے معاملات کا فیصلہ کرنے لیے بنایا گیا۔ پارسی شادی و طلاق قانون ۱۹۳۶ء میں پارسیوں کو ان کے مذہبی عقیدے کے مطابق شادی بیاہ اور علیحدگی کی آزادی دی گئی ہے۔ ہندو شادی قانون ۱۹۵۵، ہندوؤں کو اپنے رسوم اور مذہبی عقائد کے مطابق عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بلکہ ۱۹۵۵ء میں اس قانون میں ترمیم کرکے اس میں طلاق کے ضوابط شامل کیے گئے تھے جو اس سے پہلے اس قانون کا حصہ نہیں تھے۔ ۴؎
یکساں سول کوڈ اور مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام
اسے ہندوستان کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ یہاں کی سب سےبڑی اقلیت آزادی سےپہلےبھی اپنے تشخص، تہذیب و تمدن نیز اپنے دین پر عمل کرنے کے تعلق سے خطرات و اندیشے کاشکاررہی اوراسےباربارآزمائشوں میں ڈالاجاتارہا۔ اورجب ملک نے صبح آزادی میں آنکھ کھولی اس وقت بھی وطن عزیز کی یہ بڑی آبادی اپنے مستقبل کےگرد اندیشوں کی تاریک پرچھائیاں دیکھ رہی تھی۔
آزادی کے بعد وطن عزیز نے، جو مختلف مذاہب اور تہذیبوں کاگہوارہ ہے، اپنے لیے جمہوریت کوطرزحکمرانی کے طور پر منتخب کیا۔ سیکولرزم ملک کے آئین کی بنیاد ٹھہرا۔ بنیادی حقوق کے طور پر عقیدہ وضمیر کی آزادی اوراقلیتوں کےحقوق کی ضمانت دی گئی جوہندوستان جیسےتکثیری معاشرے کےلیےناگزیربھی تھا۔
دستور کے ذریعے عطا کردہ بنیادی حقوق کی رو سے اور دستور ہند میں مختلف پرسنل لا کی شمولیت سے یہ بات واضح ہے کہ تمام مذاہب اور بالخصوص اقلیتوں کو اپنے مذاہب پر عمل کرنے، مذہب کی تبلیغ کرنے اور یقینی طور پر اپنےاپنے پرسنل لا اور سول کوڈپر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ اس میں مسلم پرسنل لا بھی شامل ہے۔ معزز عدالتیں اس حق کو تسلیم کرتی رہی ہیں اور وقتاً فوقتاً اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے کرتی رہی ہیں۔ تاہم آزادی سے پہلے سے ہی ملک میں ایک مخصوص طبقہ سرگرم رہا ہے جس کی کوشش یہ ہے کہ ملک کی تمام اقلیتوں کو ایک خاص تہذیب میں ضم کردیا جائے۔ اسی طبقے کی کوششوں سے دستور کی دفعہ ۴۴ میں، جو رہنما اصولوں سے متعلق ہے، ایک شق ڈال دی گئی جو اس طرح ہے:
The State shall endeavor to secure for citizens Uniform Civil Code throughout the territory of India.
یعنی ’’ریاست کوشش کرے گی کہ پورے ملک میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ ہو۔ ‘‘
جب آئین ساز اسمبلی میں ریاست کے لیے رہنما اصولوں پر مبنی مسودہ ٔدستور کی دفعہ ۳۵ پر غور ہورہا تھا (یہی دفعہ بعد میں چل کر دفعہ ۴۴ بن گئی)، اس وقت مسلم ممبران پارلیمنٹ نے اس پر کئی ترمیمات پیش کی تھیں۔ مدراس کے جناب محمد اسماعیل نے ترمیم پیش کی کہ یکساں سول کوڈ کے لیے عوام کے کسی گروہ، فرقے یا طبقے کو اس بات کے لیے مجبور نہ کیا جائے کہ وہ اپنے پرسنل لا کو ترک کردے، اگر وہ ایسا کوئی قانون رکھتا ہو۔ دوسری ترمیم جناب نذیرالدین احمد نے پیش کی جس میں کہا گیا کہ ریاست نے جس فرقے کے پرسنل لا کو ضمانت دی ہے اس کے سول کوڈ کو تبدیل نہ کیا جائے ، الّا یہ کہ اس فرقے سے پیشگی منظوری حاصل کرلی جائے۔ ایک دیگر ترمیم محبوب علی بیگ صاحب بہادرنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا کہ یہ دفعہ شہریوں کے پرسنل لا کو کسی صورت متاثر نہ کرے ۔۵؎  ان ترمیمات پر گرما گرم بحثیں ہوئیں ۔ بہت سے غیر مسلم ارکان نے شریعت ایکٹ کے حوالے سے کہا کہ اس سے مسلمانوں کے خوجہ اور بوہرا طبقوں میں عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ انگریزوں کے دور میں بعض مسلم علاقوں میں ہندو قوانین سے فیصلے کیے جانے کے نظائر بھی پیش کیے گئے اور مصر اور ترکی میں پرسنل لا ساقط کیے جانے حوالے دیے گئے۔ آخر میں ڈاکٹر امبیڈکر نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ دفعہ ۳۵ سے کچھ زیادہ ہی خائف ہیں اور انھیں یقین دہانی کروائی کہ ان پر یکساں سول کوڈ ہرگز جبراً تھوپا نہیں جائے گا اور آئندہ پارلیمنٹ یکساں سول کوڈ میں یہ اہتمام رکھے گی کہ اس کا نفاذ خالصتاً انھیں گروہوں پر ہوگا جو رضاکارانہ طور پر اسے تسلیم کرلیں :
My second observation is to give [Muslims] an assurance. [The Article] does not say that after the Code is framed, the State shall enforce it upon all citizens merely because they are citizens. It is perfectly possible that the future parliament may make a provision by way of making a beginning that the Code shall apply only to those who make a declaration that they are prepared to be bound by it, so that in the initial stage the application of the Code may be purely voluntary.…[I], therefore, submit that there is no substance in these amendments and I oppose them. ۶؎
اور اس وقت ملک کے حالات ایسے نہیں تھے کہ یکساں سول کوڈ کے خلاف کوئی تحریک چلائی جائے، اس لیے یہ دفعہ جوں کی توں باقی رہی۔ تاہم کچھ عرصے بعدمحسوس ہونے لگا کہ حکومت کے تیور اچھے نہیں ہیں اور وہ مسلمانوں کو ان کے شرعی قوانین سے محروم کرنے کے درپے ہے۔
ہر چند کہ یہ شق دستور کی دفعہ ۴۴ میں مشمولہ دیگر رہنما اصولوں کی طرح محض ایک اصول کی حیثیت رکھتی ہے، اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق دستور کی ایک اہم دفعہ (دفعہ ۲۵) سے متصادم بھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو یکساں طور پر ضمیر کی آزادی حاصل ہوگی اور اپنے مذہب کو آزادانہ طور پر اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا بھی حق حاصل ہوگا۔ ایک طرف دستورہند کی دفعات۲۵، ۲۹، ۳۰ میں مسلم پرسنل لاکوقانونی طورپرتسلیم کرلیاگیا، لیکن ساتھ ہی دستورکےرہنمااصول دفعہ ۴۴ کےذریعےحکومت کواس بات کابھی اختیاردیاگیاکہ وہ پورےملک کےلیےیکساں سول کوڈ کانفاذ بھی کرسکتی ہے۔ یہ گویا ایسی ننگی تلوارتھی جسے مسلمانوں کی شریعت پرمستقل طورپرلٹکادیاگیا۔
 دستورکی اسی کمزوردفعہ ۴۴ کی آڑ میں مسلم پرسنل لا پر اعتراضات کرنے اور اس کے آئینی حق کو سلب کروانے اور مسلمانوں کواکثریتی دھارےمیں ضم کرلینےکی دھمکیاں بھی دی جانےلگیں۔ دھیرےدھیرےاس صورت حال کی سنگینی میں اضافہ ہوتاگیا۔ یہاں تک کہ آئینی اداروں سےبھی ایسےاحکامات صادرہونےلگےجودستورکی روسےدی گئی مذہبی آزادی میں صریح مداخلت اوراقلیتی حقوق کوسلب کرنےوالےتھے۔ مثلاً ’’اسپیشل میرج ایکٹ‘‘کےچوردروازےسےاسلامی قانون نکاح اورقانون وراثت میں خردبردشروع کی گئی۔ ۱۹۵۰ء میں ہندو کوڈ بل پیش کرتے ہوئے مرکزی وزیر قانون مسٹرپاٹسکر نے کہا تھا کہ ہندوقوانین میں جواصلاحات کی جارہی ہیں، وہ مستقبل قریب میں ہندوستان کی تمام آبادی پر نافذ کی جائیں گی۔ پھر ۱۹۶۳ء میں مرکزی حکومت نے مسلم پرسنل لا میں ’’اصلاح‘‘ کی غرض سے ایک مستقل کمیشن قائم کردیا۔ اس اقدام نے حکومت کے منفی رویے کو واضح کردیا۔ ۱۹۷۲ء میں پارلیمنٹ میں متبنی بل (بچوں کو گود لینے سے متعلق) پارلیمنٹ میں پیش کردیاگیا۔ اس کی روسےگود لیے گئے بچے کو وہی قانونی حیثیت دی گئی جو حقیقی اولاد کو ہوتی ہے اور وہ میراث میں برابر کاشریک ٹھہرایا گیا۔ اس قانون کا اطلاق مسلمانوں پر بھی ہوتا تھا جو سراسراسلامی شریعت کےمنافی تھا۔
یہی نہیں بلکہ یکساں سول کوڈ کے حامیوں کو اس وقت بڑی شہ ملی جب ملک کے وزیر قانون مسٹر ایچ آر گوکھلے نے پارلیمنٹ میں متبنی بل پیش کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ یکساں سول کوڈ کی تدوین کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ملتِ اسلامیہ میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔
اس پس منظر میں امارت شرعیہ بہار کے امیر شریعت مولانا سید منتﷲ رحمانیؒ نے جولائی ۱۹۶۳ء میں پٹنہ میں بہار اسٹیٹ مسلم پرسنل لا کانفرنس طلب کی۔ ملک کی دو بڑی تنظیموں (جمعیۃ علماء ہند اور جماعتِ اسلامی ہند) کے اس وقت کے سربراہان مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ اور مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی ؒکے علاوہ مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ، مولانا عبدالرؤفؒ ایم، ایل، سی (ناظم جمعیۃ علماء اتر پردیش) اور منظور احسن اعجازی بھی اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس طرح اسلامیان ہند کی یہ پہلی متحدہ و مشترکہ آواز تھی جو شریعت میں مداخلت کے نتیجے میں بلند ہوئی۔ مارچ ۱۹۷۲ء میں دیوبند میں مسلم پرسنل لا کے موضوع پر ایک کل جماعتی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ملت کے سرکردہ قائدین نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں طے پایا کہ ممبئی میں اس موضوع پر ایک نمائندہ کنونشن کا انعقاد کیا جائے۔ چنانچہ دسمبر ۱۹۷۲ء میں یہ تاریخ ساز نمائندہ کنونشن منعقد کیا گیا۔ تمام مکاتب فکر کے علما و دانشووراس میں شریک تھے۔ ہندوستان کی تاریخ خلافت تحریک کے بعد یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور بے مثال اجتماع تھا۔  اس اجلاس میں اتفاق رائے سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کنونشن میں تین تجاویز منظور کی گئیں: (۱) مسلم پرسنل لا مسلمانوں کے دین و مذہب کا جز ہیں، کسی پارلیمنٹ یا ریاستی مجالس قانون ساز کو ان میں ترمیم کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ (۲) متبنی بل اپنی موجودہ شکل میں شریعت میں مداخلت ہے اور مسلمانوں کو اس سے مستثنی رکھا جائے۔ (۳) اس کنونشن کے ذریعے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تشکیل کی جاتی ہے جو ہمیشہ ہر فرقہ مسلم کے علما ، ماہرین شریعت، مسلم قانون داں اور ملت کے دیگر ارباب حل و عقد پر مشتمل ہوگا۔ ۷؎
۸؍ اپریل ۱۹۷۳ء کو اجلاس حیدرآباد میں بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی۔ مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ بورڈ کے پہلے صدر اور مولانا سیدمنتﷲ رحمانی صاحبؒ بورڈ کے پہلے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔ ۸؎
بورڈ کے بنیادی مقاصد میں تین باتیں شامل ہیں: (۱) مسلمانوں کو پرسنل لا کے بارے میں باشعور رکھنا، نیز پارلیمنٹ اور صوبائی مجالس قانون ساز اور عدلیہ میں زیر بحث آنے والے ایسے تمام قوانین کی تشریح پر نظر رکھنا جن کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ مسلم پرسنل لا سے ہو۔ (۲) محمڈن لا کا جائزہ لینا اور مختلف دبستان  فقہ سے استفادہ کرتے ہوئے ، مناسب حدود میں واقعی دشواریوں کو ماہرین و علما کے باہمی مشورے سے حل کرنا۔ (۳) مسلمانوں کو عائلہ و معاشرتی زندگی کے بارے میں شرعی احکام ، حقوق و فرائض  سے واقف کرانا، اس سلسلے میں ضروری لٹریچر کی اشاعت نیز مختلف مکاتب فکر کے درمیان  اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانا۔
۱۹۸۳ء میں قاری طیب صاحبؒ کی وفات کے بعد چنئی کےاجلاس میں مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کو بورڈ کادوسرا صدر منتخب کیا گیا۔ ان کے بعد ۲۰۰۰ء میں لکھنؤ اجلاس میں مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ بورڈ کے تیسرے صدر منتخب ہوئے۔ ان کے بعد جون ۲۰۰۲ء میں حیدرآباد اجلاس میں موجودہ صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا بحیثیت صدر انتخاب عمل میں آیا۔ مختلف اوقات میں، دیوبندی حلقہ سے امیر شریعت مولانا ابوالسعود احمدؒ، بریلوی مکتبہ فکر سے مولانا مفتی برہان الحق جبل پوریؒ، مولانا مظفر حسین کچھوچھویؒ، مولانامحمد محمدالحسینیؒ (سجادہ نشیں گلبرگہ شریف) ، شیعہ مکتبہ فکر سے مولانا کلب عابد مجتہد، اہل حدیث حلقہ سےمولانا ڈاکٹر عبد الحفیظ سلفیؒ، مولانا مختار احمد ندویؒ، جماعت اسلامی سے مولاناابواللیث اصلاحی ندویؒ، مولانا محمدیوسف صاحبؒ اور مولانا سراج الحسن صاحب بورڈ کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ اس وقت مولانا محمد سالم قاسمی، مولانا سید شاہ فخر الدین اشرف، مولانا کلب صادق (لکھنؤ) مولانا سیدجلال الدین عمری اورمولانا کاکا سعید احمد عمری نائب صدر ہیں ۔ ۹؎
مصادر
۱.  حسین، واحد، Administration of Justice During the Muslim Rule in India ۱۹۳۴۔ طبع ثانی  ۱۹۸۶۔ نئی دہلی، ص ۱۰۳-۱۰۹
۲.  پیرزادہ، شمس ، مسلم پرسنل لا اور یکساں سول کوڈ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۲۰۱۴، ص۷۔
۳.  ایضاً۔ ص ۸۔
۴.  انڈین ایکسپریس، ویب سائٹ http://indianexpress.com/article/research/shariat-muslim-personal-law-sharia-history-shayara-bano-shah-bano-triple-talaq-personal-laws-religious-laws-uniform-civil-code-2784081/
۵.  پارلیمنٹ آف انڈیا،  ویب سائٹ۔  http://parliamentofindia.nic.in/ls/debates/vol7p11.htm
۶.  ایضاً
۷.   آل اندیا مسلم پرسنل لا بورڈ خدمات و سرگرمیاں، ناشر آ انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، نئی دہلی، ۲۰۱۰۔
۸.  بصیرت آن لائن، ویب سائٹ۔ http://www.baseeratonline.com/40715.php
۹.  ایضاً

0 comments:

تبصرہ کیجیے

سفر درونِ ذات بے قیام کیوں نہیں رہا

بدھ, نومبر 15, 2017 عرفان وحید 0 Comments



مسافتوں کا پھر وہ اہتمام کیوں نہیں رہا
سفر درونِ ذات بے قیام کیوں نہیں رہا

0 comments:

تبصرہ کیجیے

کہیں سحر تو نہیں ہے غبار میں اب بھی

ہفتہ, نومبر 04, 2017 عرفان وحید 0 Comments


چھپا ہے نظم کوئی انتشار میں اب بھی
کہیں سحر تو نہیں ہے غبار میں اب بھی

0 comments:

تبصرہ کیجیے

ہرا بھرا تھا شجر بے لباس کیسا ہے

بدھ, اکتوبر 18, 2017 عرفان وحید 0 Comments


چمن میں آج یہ منظر اداس کیسا ہے
ہرا بھرا تھا شجر بے لباس کیسا ہے

0 comments:

تبصرہ کیجیے

یہ وقت معرضِ کرب و بلا میں ٹھہرا ہے

جمعرات, ستمبر 21, 2017 عرفان وحید 0 Comments


ہنوز عرصہ ٔ جور و جفا میں ٹھہرا ہے
یہ وقت معرضِ کرب و بلا میں ٹھہرا ہے

0 comments:

تبصرہ کیجیے

ستم گر کو پشیمانی بہت ہے

منگل, اگست 15, 2017 عرفان وحید 0 Comments



سرِ آئینہ حیرانی بہت ہے
ستم گر کو پشیمانی بہت ہے

0 comments:

تبصرہ کیجیے

قدم رواں ہیں رہِ پُرخطر کے ہوتے ہوئے

جمعرات, جولائی 13, 2017 عرفان وحید 0 Comments


ہزار وحشتِ تیر و تَبَر کے ہوتے ہوئے
قدم رواں ہیں رہِ پُرخطر کے ہوتے ہوئے

0 comments:

تبصرہ کیجیے

جنوں کی جلوہ سامانی بہت ہے

جمعرات, جون 22, 2017 عرفان وحید 0 Comments


خرد کی گرچہ ارزانی بہت ہے
جنوں کی جلوہ سامانی بہت ہے

0 comments:

تبصرہ کیجیے

عصر حاضر میں مذہب کی اہمیت و معنویت

پیر, مئی 01, 2017 عرفان وحید 0 Comments


ہر چند کہ سیکولرازم کے فروغ کی وجہ سے اخلاقیات کو مذہب سے الگ جز تصور کیا جانے لگا ہے لیکن یہ ایک حقیقت کہ تمام مذاہبِ عالم عمومی سماجی اخلاقیات کاکم و بیش یکساں درس دیتے ہیں۔تمام مذاہب میں جھوٹ، چوری، لوٹ مار، قتل و غارت گری، زنا او ردیگر اخلاقی خامیوں کی یکساں ممانعت وارد ہوئی ہے۔ انسانی زندگی میں مذہب معنویت اور رنگ پیدا کرتا ہے۔دنیا کی تمام تر ثقافتی، سماجی ، اخلاقی اور فلسفیانہ ترقی کا رشتہ مذہب سے ہے۔  مذہب انسانوں کو قریب لانے کا ذریعہ ہے۔ غور کیجیے، آپ پچھلی بار اپنے دور رہنے والے اعزا و اقارب سے کب ملے تھے۔ غالب امکان یہی ہے کہ ایسا موقع کسی مذہبی تہوار نے فراہم کیا ہوگا۔  تمام منظم مذاہب انسانوں کو برادری کا شعور بخشتےہیں۔ انسان بغیر معاشرے اور برادری کے کتنا تنہا محسوس کرے گا۔ آپ کے سامنے سے گزرنے والے اجنبی سے ہوسکتا ہے آپ کا کوئی تعلق نہ ہو، لیکن مذہب اس احساس اجنبیت کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ہمیں احساس کرواتا ہے کہ ہم ایک مضبوط برادری کا حصہ ہیں۔ پھر مذہب ہمیں زندگی کرنے کا ہنر سکھاتا ہے۔ یہ علم کی تحصیل اور روزمرہ زندگی میں اسے برتنے پر یکساں زور دیتا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی یونیورسٹی آپ کو یہ نہیں سکھاتی کہ تنہائی میں آپ کیسے رہیں، آپ کا اخلاقی رویہ کیا ہو،جب آپ کو کوئی نہ دیکھ رہا ہو اس وقت آپ اپنے کردار کو برائیوں سے کیسے دور رکھیں ؟یہ آداب مذہب سکھاتا ہے۔ 

0 comments:

تبصرہ کیجیے

ناانصافی کی بدترین شکل

ہفتہ, فروری 18, 2017 عرفان وحید 0 Comments


۲۰۰۵ مین سروجنی نگر دہلی میں دھماکوں سے جلی  ہوئی گاڑیوں کا ایک منظر۔ فوٹو بشکریہ ہندوستان ٹائمز۔

جمعرات کو (یعنی ۱۶ فروری کو) دلی کے پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے ۲۰۰۵ء میں ہونے والے دلی کے سروجنی نگر، پہاڑ گنج اور کالکا جی کے سلسلےوار دھماکوں کے دو ملزمین کو گیارہ سال تک انڈر ٹرائل رکھنے کے بعد باعزت طور پر بری کردیا جبکہ ایک تیسرے ملزم کو ۱۰ سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ ۲۰۰۵ء میں دیوالی سے ایک روز قبل ہونے والے ان تین دھماکوں میں ساٹھ افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے جن میں بچے ، بوڑھے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ گرفتار شدگان تینوں ملزمین کا تعلق کشمیر سے تھا۔
بری ہونے والے ایک نوجوان رفیق شاہ کی ماں کے مطابق مذکورہ دھماکےکے دن اس کا بیٹا سری نگر میں کالج کی کلاس اٹینڈ کررہا تھا۔ وہ ان دنوں ایم اے کررہا تھا۔ رفیق کی ماں، محبوبہ یاسین کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا بالکل بے گناہ تھا۔وہ کبھی دلی آیا ہی نہیں تھا۔ ’’انہوں نے فرضی معاملے میں میرے بیٹے کے دس سال چھین لیے ۔ آخر ہمیں یہ دس سال کون واپس دے گا؟‘‘
ایسا نہیں ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہو۔ اس سے قبل بھی ایسے متعدد معاملات میں ملزمین کو عدالتوں نے بری کیا ہے۔ عامر خان کو ۱۹۹۸ء میں دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے گرفتار کیا تھا اور اس پر اُنّیس بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ ۱۴ سال بعد تمام الزامات بے بنیاد ثابت ہوئے اور اسے باعزت رہا کردیا گیا۔ ارشاد علی اور معروف قمر کو دہلی کے اسپیشل سیل نے سازش اور ہتھیار رکھنے کے جرم میں ۲۰۰۶ء میں گرفتار کیا۔ دہلی سیشن کورٹ نے الزامات ثابت نہ ہونے پر گیارہ سال بعد رہا کر دیا۔ خورشید احمد بھٹ کو ۲۰۰۵ء میں مختلف الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا اور ۲۰۱۱ء میں بری کردیا گیا۔ ارشاد احمد ملک پر دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کے ساتھ لنک ہونے کاچارج لگایا گیا اور برسوں بعد پولیس کے ذریعے لگائے گئے کسی بھی الزام کے ثابت نہ ہونے کے بعد اسے رہا کردیا گیا۔ ایاز احمد شاہ عرف اقبال کو ۲۰۰۴ء میں دہلی کے اسپیشل سیل نے پکڑا تھا۔ اقبال کے معاملے کو غیر سنجیدگی سے لینے کے لیے عدالت نے پولیس کی سخت سرزنش کی اورا قبال پرلگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر بری کردیا۔ 
حالیہ واقعہ میں تینوں ملزمین، محمد رفیق شاہ، محمد حسین فضلی اور طارق دار، کو ۲۰۰۶ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر دہشت گردی سمیت متعدد الزامات عائد کیے گئے تھے۔ محمد رفیق شاہ ایک طالب علم تھا۔ محمد حسین فضلی دہلی میں چادریں فروخت کرتا تھا ، جبکہ طارق دار ایک کمپنی میں سیلز مین تھا۔ عدالت نے پولیس کے ذریعے لگائے گئے تمام چارج بے بنیاد ثابت ہونے پر اول الذکر اور ثانی الذکر کو بری کردیا جبکہ تیسرے ملزم طارق دار کو ۱۰ سال کی قیدکی سزا سنائی۔ چونکہ تینوں ملزمین گیارہ سال جیل میں انڈر ٹرائل رہ چکے ہیں اس لیے طارق بھی بَری قرار دیا جائے گا۔
طارق دو بچوں کا باپ ہے جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم تھا۔ اس کے گھر والوں کا الزام ہے کہ پولیس نے اسے ۱۰ نومبر کو کشمیر سے اغوا کیا تھا اور جھوٹے الزام میں پھنساکر جیل میں ڈال دیا تھا۔
پولیس کی ’مستعدی ‘ اور عدالتی ’انصاف ‘ کی یہ محض چند مثالیں ہیں، ورنہ اب بھی نہ جانے کتنے بے گناہ جیلوں کے اندر امید وبیم کے درمیان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں انصاف کی راہ تک رہے ہیں۔ 
ہر بے گناہ کے چھوٹ جانے پر سب سے بڑا سوال یہی اٹھتا ہے کہ اگر وہ مجرم نہیں تھا تو اصل مجرم کہاں ہے؟  کیا عدالتوں کے ذریعے ملزمین کو بری کردیے جانے سے بعد بم دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات کے معاملات کا فیصلہ ہوگیا؟ اگر ہاں، تو پھر اس کا یہی مطلب یہ ہے کہ اصل مجرم آج بھی کھلے گھوم رہے ہیں  اور بے گناہوں کی آزادی کی قیمت پر،عدلیہ کے قیمتی وقت کی قیمت پر اور سماج کے امن اور سکون کی قیمت پر اپنی آزادی  کا جشن منارہے ہیں۔ کیا پولیس نے اس پورے عرصے میں اصل مجرموں کی پردہ پوشی نہیں کی؟ کیا عدالتیں ان تمام معاملات میں بری ہونے والے بے گناہ ملزمین کو ہرجانہ دلائیں گی؟ ان کے روزگار اور خاندان کی کفالت کا انتظام کریں گی؟ کیا عدالتوں کو نئے سرے سے ان تمام معاملات کو نہیں کھلوانا چاہیے جن میں تمام یا بیشتر ملزمین بری ہوجاتے ہیں ، اور اصل مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟ کیا پولیس اہل کاروں نے بے گناہوں کو جھوٹے، فرضی اور بے بنیاد معاملات میں پھنساکر انصاف کا قتل نہیں کیا؟ کیا ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ کیا خاطی پولیس اہل کاروں کے خلاف سخت ترین قانون نہیں بننے چاہئیں؟
افسوس تو یہ ہے کہ فرضی انکاؤنٹروں اور فرضی معاملات میں پھنسانے والے پولیس اہل کاروں کو ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ دور کیوں جائیے۔ گزشتہ سال مدھیہ پردیش میں جیل سے فرار ہونے والے مبینہ دہشت گردوں کے انکاؤنٹر وں کا معاملہ اور ریاستی حکومت کا اس میں ملوث پولیس اہل کاروں کو انعامات سے سرفراز کیے جانے کا واقعہ ابھی عوامی یادداشت سے محو نہیں ہوا ہے۔ 
کہتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے اور انصاف کا قاعدہ یہ ہے کہ خواہ مجرم چھوٹ جائے لیکن بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہیے۔ بے گناہوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینا ناانصافی کی بدترین شکل ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کے مہلوکین کو انصاف دلانے کی صورت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ اصل مجرموں کو عدالتیں قرار واقعی سزا دیں۔ساتھ ہی ریاستی نظام کے ہاتھوں گناہِ ناکردہ کی پاداش میں جبر ڈھونے والے معصوموں کے معاشی و سماجی مقام کی بازیابی کا سوال بھی عدلیہ و مقننہ سے مناسب حل کامنتظرہے۔

0 comments:

تبصرہ کیجیے

نعت رسولِ خیرالانام ﷺ

جمعہ, فروری 17, 2017 عرفان وحید 0 Comments




وراے سدرہ وہ نقشِ دوام آپؐ کا ہے 
کہ انتہا سے بھی آگے مقام آپؐ کا ہے

جمال، حرف، نظر، روشنی، ادا، خوشبو
صد استعارہ کمال و تمام آپؐ کا ہے

حضورِ ایزدی چرچا مدام ہے ان کا 
زباں پہ جن کی شب و روز نام آپؐ کا ہے

وہی جہاں میں ہے بس احترام کے لائق
غلام جو بھی اے خیر الانام آپؐ کا ہے  

تمام دنیا کو ہے آپؐ کا پیام نوید
تمام خلق پہ رحمت نظام آپؐ کا ہے

چمن چمن میں درودوں کے زمزمے ہیں مدام 
کلی کلی کی چٹک میں  سلام آپؐ کا ہے


ہزار راہِ محبت میں آئے دشواری
وفاشعار مگر مست گام آپؐ کا ہے

زہے کہ نوکِ قلم آج نعتِ پاک ہوئی
خوشا کہ وردِ زباں آج نام آپؐ کا ہے

وحیدؔ بھی ہے طلب گارِ کوثر و تسنیم
اگرچہ وہ بہت ادنیٰ غلام آپؐ کا ہے


0 comments:

تبصرہ کیجیے